ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی
ٹی ایم) کے درمیان تنازع مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے ٹوئٹر پر پی ٹی ایم کی قیادت کی گرفتاری اور محسن داوڑ کی قومی اسمبلی کی رکنیت خارج کرنے کے مطالبے کے بعد آج یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں نے شمالی وزیرستان کی ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے کئی فوجی اہلکاروں کو بری طرح زخمی کر دیا ہے۔
ٹی ایم) کے درمیان تنازع مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گذشتہ کئی روز سے ٹوئٹر پر پی ٹی ایم کی قیادت کی گرفتاری اور محسن داوڑ کی قومی اسمبلی کی رکنیت خارج کرنے کے مطالبے کے بعد آج یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ محسن داوڑ اور ان کے ساتھیوں نے شمالی وزیرستان کی ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے کئی فوجی اہلکاروں کو بری طرح زخمی کر دیا ہے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ’پی ٹی ایم رہنماؤں محسن جاوید اورعلی وزیر کی سربراہی میں ایک گروہ نے آج صبح شمالی وزیرستان کے ضلع بویہ کی خڑ کمر چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس کا مقصد کچھ شرپسندوں اور ممکنہ دہشت گردوں کو چھڑانا تھا
آئی ایس پی آر کے مطابق ’مذکورہ گروہ کی فائرنگ سے پاک فوج کے پانچ جوان زخمی ہوئے جبکہ حملہ کرنے والے تین افراد ہلاک اور دس زخمی ہوگئے، جنہیں طبی امداد کے لیے آرمی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘
ترجمان فوج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ’اس واقعے کے بعد علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ محسن داوڑ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، جن کی تلاش جاری ہے۔‘
شمالی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چیک پوسٹ پر محسن داوڑ اور علی وزیر کے محافظوں اور فوجی اہلکاروں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد معاملہ ہاتھا پائی تک جا پہنچا۔
دوسری جانب پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دوسرے کارکنان نے ٹوئٹر پر موقف اختیار کیا کہ شمالی وزیرستان کی تحصیل مچا مداخیل میں چیک پوسٹ پر تعینات فوجی اہلکاروں نے ان کے دھرنے کے شرکا پر حملہ کرکے متعدد لوگوں کو زخمی کر دیا، جن میں محسن داوڑ بھی شامل ہیں۔
منظور پشتین نے ٹوئٹر پر لکھا: ’موجودہ واقعہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے اُس بیان کی طرف اشارہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اب وقت ختم‘، انہوں نے پچھلے کئی دنوں سے ٹوئٹر پر ایک مخالف ماحول بنایا ہوا تھا تاکہ آج کا یہ واقعہ عمل میں لایا جا سکے۔‘
گذشتہ ماہ کے آخرمیں پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے تنبیہہ کی تھی کہ ’پی ٹی ایم نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی، اب بس اور نہیں‘۔
ترجمان آئی ایس پی آر نے پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو ’نام نہاد‘ قرار دیتے ہوئے ان کی فنڈنگ اور مالی معاملات کے حوالے سے کچھ سوالات بھی اٹھائے تھے۔
مزید پڑھیے: ’پی ٹی ایم نے جتنی آزادی لینی تھی لے لی‘
شمالی وزیرستان کے رہائشی مرتضیٰ محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ دھرنا گذشتہ کچھ روز سے جاری تھا جس میں پشتونوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ اس دھرنے کی قیادت علی وزیر اور محسن داوڑ کر رہے تھے۔ آج صبح 11 بجے ان کا قافلہ جوں ہی آگے بڑھ رہا تھا ایک چیک پوسٹ پر ان کو روک دیا گیا، جس کے نتیجے میں بات بگڑ کر تشدد کی شکل اختیار کر گئی اور کئی لوگ زخمی ہوگئے۔‘
مرتضیٰ محسود کا کہنا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق محسن داوڑ سمیت آٹھ افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد وزیرستان میں پی ٹی سی ایل کی سہولت منقطع کر دی گئی ہے، لہذا مزید تفصیلات کا اس وقت پتہ لگانا مشکل ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں رواں ماہ ایک دس سالہ بچی فرشتہ کو ریپ کے بعد قتل کیے جانے کے خلاف اپنے احتجاج میں پی ٹی ایم نے پاکستانی ریاست اور فوج کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا، جس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل نے خبر چلائی تھی کہ دراصل فرشتہ کا خاندان بنیادی طور پر افغانستان سے تعلق رکھتا ہے، اسی لیے پی ٹی ایم زور و شور سے احتجاج کر رہی ہے۔
نجی ٹی وی چینل کی خبر کے بعد پشتون تحفظ تحریک کی قیادت اور پیروکاروں نے خود کو افغان کہلوانا شروع کر دیا، جس پر سوشل میڈیا کے صارفین نے ان کی گرفتاریوں اور محسن داوڑ کی قومی اسمبلی سے رکنیت خارج کرنے کی تحریک بھی چلائی۔
No comments:
Post a Comment