Thursday, December 24, 2020

Video - Chairman Bilawal Bhutto Zardari addresses the inauguration ceremony of Malir expressway in Karachi

Govt talks about improved economy but people are committing suicide: Bilawal Bhutto

 


PPP Chairman Bilawal Bhutto Zardari on Thursday said that while the PTI-led government is busy making tall claims about improved economic indicators, people are committing suicide because of poverty.

He was addressing a press conference after the inauguration ceremony of the Malir Expressway in Karachi, during which he said that Pakistan is even lagging behind Afghanistan and Bangladesh in terms of gross domestic product (GDP).

Shedding light on woes of the common man, Bilawal said that people are slapped with hiked electricity and gas bills, but they do not get an adequate supply of electricity or gas in their houses.

"What solutions do you have for the masses? What are you even doing for them," Bilawal questioned Prime Minister Imran Khan. "The PM only says 'what can I do' whenever the country finds itself in crises."

He added: "When Kashmir was attacked, the PM said 'what can I do?' People are suffering from extreme poverty and inflation, and the premier continues to say 'what can I do'."

The PPP chairman went on to say that PM Imran Khan should resign from his position and go home if he does not have the solution to Pakistan's problems.

"We are the ones who know how to solve people's problems because we steered Pakistan away from crises [in 2008] when the entire world was struggling with a global recession," Bhutto-Zardari claimed. "We did not abandon the masses even during the most critical situation in history."

Speaking about the initiatives the PPP government took during its tenure, Bilawal said that the Benazir Income Support Programme (BISP) alleviated the conditions of the people and helped them fight poverty.

"We even gave increments to people on their salaries and pensions despite the national kitty being empty at the time," he maintained. "We even increased the Pakistan Army's salary by 175 %, which had been unprecedented in the country's history."

Bilawal warned that if the ongoing situation continues, it would become impossible for the government to control the wrath of the masses.

Speaking about Balochistan, he said that "the region where gas is produced is itself deprived of gas supply."

"People of Karachi cannot light their stoves, how would they contribute to the economy?"

The PPP chairman also shed light on the ongoing issue of his party members' resignations from the national and provincial assemblies, saying that all PPP MPAs and MNAs have already submitted their resignations to him.

"I know how each and every member is being pressurised to retract their decisions. Do not treat my people like this," he said. "I know who is doing this, so don't compel me to expose you."

"You cannot blackmail civil servants," he said.

Developmental projects in Sindh

Elaborating on the different developmental projects that the Sindh government introduced in the province, Bilawal Bhutto said that the ruling PPP — with the help of public-private partnership — completed and initiated more projects in the province than the Centre and all other provinces combined. 

https://www.geo.tv/latest/326277-govt-talks-about-improved-economy-but-people-are-committing-suicide-bilawal-bhutto

We can’t let the country turn into an experiment and training factory for the selected puppets, Chairman PPP


 Chairman Pakistan Peoples Party Bilawal Bhutto Zardari has said that instead of turning the country into an experiment and training factory for the selected and puppets, Pakistan needs strong leadership to uphold the democratic ideals of its Founder Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah for Pakistan.

In his message on the 145th birthday anniversary of Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, the PPP Chairman paid glowing tributes to the visionary leader who established a country through a peaceful and democratic movement for the Muslims of united India.

Bilawal Bhutto Zardari said that Quaid-e-Azam’s mission for an egalitarian and strong Muslim-majority nation as a role-model for the entire Ummah has yet to be achieved completely and now it is the collective responsibility of the entire nation to fully realize his dream.

He said PPP is the real torchbearer of the ideology of Pakistan conceived by Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah as both our former Chairpersons and Prime Ministers Shaheed Zulfikar Ali Bhutto and Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto laid down their lives for this ideology.

Bilawal Bhutto Zardari pledged to carry forward the struggle for a peaceful, prosperous, and egalitarian Pakistan and called upon the people to join his Party’s endeavors to achieve the mission of our Founder of the Nation.

https://www.ppp.org.pk/pr/24208/

وزیراعظم صاحب۔۔! عوامی مسائل کا حل معلوم نہیں تو گھر چلے جائیں، بلاول بھٹو

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک پر ہمارے وزیراعظم ابھی تک زیر تربیت ہیں۔ تمام


بوجھ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ عمران خان کے پاس عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے تو وہ گھر چلے جائیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کراچی میں ملیر ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان آج افغانستان اور بنگلا دیش سے بھی پیچھے ہے۔ مشکل حالات میں وزیراعظم کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ میں کیا کروں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کا پیپلز پارٹی کا ٹریک ریکارڈ موجود ہے۔ ہم نے نااہل اور نالائق وزیراعظم کو بھگانا ہے۔ ہم نے عوامی حکومت لانی ہے جس کا کام عوام کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔ دوسروں کے اشاروں پر آنے والے عوام پر توجہ نہیں دیتے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت صوبوں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ جب صوبوں نے حساب مانگنا شروع کیا تو انکے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ اگر یہی حالات رہے تو پھر عوام پر کوئی قابو نہیں پا سکے گا۔ کراچی جیسے شہر میں گیس نہیں ہے۔

https://samachar.pk/

ایک یونانی کا غم: تُم نے بھٹو کو کیوں مارا….؟ | ڈاکٹر عبدالخالق

تحریر: ڈاکٹر عبدالخالق

میرا واپسی کا ہوائی ٹکٹ ہفتہ بھر مسلسل پسینے میں بھیگنے سے اتنا خراب ہو چکا تھا کہ اس پر تمام لکھائی مٹ چکی تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کمر والی بیلٹ میں پسینے کی نمی داخل ہو جائے گی۔ پاسپورٹ تو اپنے دبیز کور کی وجہ سے محفوظ رہا لیکن ٹکٹ کی خاطر میں بہت پریشان تھا۔ کمپیوٹرائزڈ ٹکٹ ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر اس وقت یہ رائج نہ تھا لہذا ٹکٹ ہاتھ سے ہی لکھے جاتے تھے۔ آسانی رہی کہ ٹکٹ دوہرا کر کے رکھا تھا اور اندر کے دو کوپن قدرے پڑھے جا رہے تھے جو استعمال کر کے میں کراچی اور پھر راولپنڈی پہنچا۔

پی آئی اے آفس رجوع کیا تو انہوں نے نیا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ نائجیریا سے آئے ہوئے ایک دوست عبدالقیوم صاحب سے بات کی انہوں نے کہا ٹکٹ اور ایک کاغذ پر باقی ماندہ سفر کی تفصیل لکھ کر لاہور بھجوا دو کچھ کرتا ہوں۔ عبدالقیوم صاحب نے لاہور میں مین پاور عراق بھجوانے کے لئے ایک ریکروٹمنٹ ایجنسی بنائی ہوئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ نیا ٹکٹ بن گیا۔

چھٹی ختم ہونے کے قریب تھی مگر بیگم صاحبہ میکے والوں کا پیار مزید سمیٹنا چاہتی تھیں۔ مجھے تو ڈیوٹی پر پہنچنا تھا لہذا میں روانہ ہوا اور ان کا آنا بعد میں ٹھہرا۔ میں پی آئی اے کی کوپن ہیگن کی پرواز سے سفر کر رہا تھا۔ ایتھنز اس کا پہلا سٹاپ اوور میری پہلی منزل تھا۔ ان دنوں یہ فلائٹ دو سٹاپ اوورز کے بعد کوپن ہیگن پہنچتی تھی اور ایک منافع بخش روٹ تھا جسے پی آئی اے کی مہارت نے پہلے غیر منافع بخش بنایا اور بعد میں بند کر دیا گیا۔

ایتھنز ائرپورٹ بڑا سادہ اور پر سکون لگا۔ عمارت سے باہر نکلتے ہی سڑک پر ہوٹل کی گاڑی تیار کھڑی تھی اور دس بارہ منٹ بعد میں ہوٹل پہنچ گیا۔ ایتھنز یورپ کے پرانے شہروں میں سے ایک ہے جو 3400 سال پہلے آباد ہوا۔ ایتھنز کو سب سے پرانا دارالحکومت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ یہ سقراط بقراط ارسطو اور افلاطون جیسے ذی علم اور فلسفی شخصیات کا مسکن رہا۔ فنون لطیفہ اس شہر کی پہچان ہیں۔ ایتھنز کو مغربی تہذیب اور جمہوریت کی جنم بھومی بھی کہا جاتا ہے۔ ارسطو کو سکندر اعظم کا استاد ہونے کا اعزاز بھی رہا۔ ایتھنز کو 1896 میں پہلی اولمپک کھیلوں کی میزبانی کا شرف بھی رہا۔ اس شہر کی دنیا میں سب سے زیادہ سٹیڈیم اور تھیٹرز ہونے کی شہرت بھی ہے مگر ایکرو پولس سب سے زیادہ ایتھنز کی شہرت کا باعث ہے۔

ایکروپولس ایک پہاڑی کے اوپر ہموار سطح پر بنا ہوا قدیم قلعہ ہے جو ساڑھے سات ایکڑ سے زیادہ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے گرد ایک پندرہ فٹ چوڑی اور بیس فٹ اونچی دیوار ہے۔ پہاڑی کے دامن سے اوپر تک بہت خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ سیڑھیوں کی سمت اور لمبائی چوڑائی قدرتی ڈھلوان کے مطابق ہے اور راستے میں کہیں کہیں درمیانے سائز کے پودے بھی اس راستے کو حسین تر بنا دیتے ہیں۔ یہ سیڑھیاں اوپر ایک ستونوں والی خوبصورت عمارت تک لے جاتی ہیں جسے پروپائلیا کا نام دیا گیا ہے۔

صدیوں کی شکست و ریخت کے باوجود اب بھی یہ عمارت اتنی دلکش ہے کہ اس کو مسکن بنا لینے کو جی چاہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں پروپائلیا کو بادشاہ کی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ اس کے درمیان سے گزر کر ہم ایکروپولس میں داخل ہوتے ہیں یا یوں کہیں کہ یہ اس کمپلیکس کی پہلی عمارت ہے جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ دراصل پروپائلیا اس عظیم الشان عالمی ورثے کا استقبالیہ ہے۔ اس کے بعد کھلی جگہ میں اگر ہم چاروں اطراف نظر دوڑائیں تو ایکروپولس کی تمام عمارات دیکھ سکتے ہیں۔

پروپائلیا کے بائیں جانب اریکنیان کے نام سے ایتھنا دیوی اور دیگر دیوتاؤں اور ہیروز کے اعزاز میں ایک شاندار ٹیمپل بنایا گیا ہے جس کے پورچ کی چھت کو ستونوں کے بجائے چھ نسوانی مجسموں نے اٹھایا ہوا ہے اور دائیں جانب ایتھنا نائیکی ( فتح کی دیوی) کا ٹیمپل بھی بنایا گیا ہے۔ نائیکی کا نام کھلاڑیوں کے لئے جاگر اور ٹریک سوٹ وغیرہ بنانے والی کمپنی نے خوب استعمال کیا ہے۔

یونانی مائتھالوجی میں عقل، ہینڈی کرافٹ اور جنگ کی دیوی کو ایتھنا دیوی کا نام دیا گیا ہے۔ پروپائلیا سے کچھ آگے جا کر دائیں طرف یہاں کی سب سے عالیشان اور سب سے بڑی عمارت ہے جو اسی دیوی کے اعزاز میں بنائی گئی تھی اور اسے پارتھینان کہتے ہیں۔ جب عیسائیت پھیلی تو پارتھینان کو حضرت مریم کے لئے مخصوص کر دیا اور اریکنیان کو گرجا بنا دیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں یہ بارود کے ذخیرے کے لئے استعمال ہوئی اور جب حملہ آوروں کی گولہ باری سے بارود کا ذخیرہ پھٹا تو بہت تباہی مچی۔ پارتھینان کے ساتھ ہی ایک اور ٹیمپل بنا جو کہ حاملہ خواتین کی دیوی ارتیمس برارونیہ کا مزار سمجھا جاتا ہے۔

پارتھینان سے کچھ آگے جا کر دائیں طرف ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے جہاں بہت سے نوادرات اور مجسمے شو کیسز میں بند نمائش کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ یہ نوادرات ایکروپولس کے اندر سے ہی اکٹھے کیے ہوئے تھے۔ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایکروپولس ایک بے بہا خزانہ ہے جہاں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ میرے پاس کیمرہ نہیں تھا اس لئے وہاں موجود ایک فوٹو گرافر سے میں نے تصویر بنوانے کا ارادہ کیا۔ پارتھینان اور پروپائلیا کے درمیان بکھرے ہوئے بے شمار ماربل کے ٹکڑوں اور پتھروں کے بیچ ایک پتھر پر بیٹھے فوٹوگرافر سے میں نے تصویر بنانے کا کہا۔

یہ یونانی شخص پچاس برس سے کچھ اوپر کا ہو گا اور اپنا مدعا بیان کرنے کی حد تک انگریزی زبان جانتا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تصویر بنانے کی کارروائی کرتے ہوئے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں؟ میرا پاکستان کا نام لینا تھا کہ اس کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے۔ کہنے لگا کہ میں تصویر بعد میں بناؤں گا پہلے بتاؤ تم نے علی بھٹو کو کیوں مارا؟ اسے بھٹو صاحب کا پورا نام بھی نہیں آتا تھا۔ بار بار کہے جا رہا تھا کہ تم نے علی بھٹو کو کیوں مارا۔

وہ انتہائی جذباتی ہو رہا تھا اور اس کی خشمگیں نگاہوں سے یہی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ جرم مجھ سے ہی سرزد ہوا تھا۔ وہ اپنے جذبات کے زبانی اظہار سے آگے اگر نہیں بڑھا تو اس کا واحد سبب میرا غیر ملکی ہونا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ہم بھی ایسا نہیں چاہتے تھے اور یہ ایک عدالتی فیصلہ تھا اور ادھر ادھر کی باتیں کیں تو وہ نارمل ہوا اور میری تصویر بنائی جو میں شیئر کر رہا ہوں۔

میں سوچتا رہا کہ بھٹو صاحب کی شخصیت کا جادو تھا یا ان کی غیر طبعی موت کا شہرہ کہ سمندر پار ایک غیر قوم کا فرد جس کی ان کے ساتھ نہ تو فکری آگہی تھی نہ ہی کوئی رشتہ مگر وہ ان کی موت کا غم اتنی گہرائی تک محسوس کر رہا تھا جبکہ بھٹو صاحب کی سزا پر عملدرآمد ہوئے پونے دو سال بیت چکے تھے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اسی سر زمین پر ڈھائی ہزار سال پہلے سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا تھا۔

غروب آفتاب سے قبل میں ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ رات کھانے کے بعد ہوٹل سے باہر چہل قدمی کے لئے نکلا۔ سڑک کے پار ساحل سمندر پر رنگا رنگ روشنیوں نے متوجہ کیا تو اس طرف چل دیا۔ یہ ایک امیوزمنٹ پارک تھا جہاں چھوٹے بچوں سمیت ہر عمر کے لوگ تفریح میں مشغول تھے۔ مختلف اقسام کے جھولے اور رولر کوسٹر وغیرہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ کچھ جنک فوڈ کا مزہ لے رہے تھے۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرنے کے بعد ہوٹل واپس آ کر جلدی سو گیا کیونکہ صبح صبح ائرپورٹ روانگی تھی۔

https://samachar.pk/