Tuesday, February 8, 2022

Video Report - Doctor says low Covid-19 vaccination rate in children means it’s too soon to drop mask mandates

Video Report - What's needed to defeat Long Covid?

Video Report - #Russia #Ukraine #Scholz A stark warning for Moscow

Video Report - Putin To Macron: You Have Been Tormenting Me For 6 Hours! There Will Be No Winners If WW3 Breaks Out

Video Report - #Ukraine #Russia #NATO World leaders intensify diplomatic efforts to defuse Ukraine standoff | DW News

Urdu Music Video - Ahmad Rushdie - Bhoolee Hoi Dastan

بھٹو خاندان کی کرپشن اور زرداری




 پاکستان کی مرکزی سیاسی قیادت کو گزشتہ تین دہائیوں سے بڑے منظم انداز میں کرپشن میں لتھڑا ہوا ثابت کیا جا رہا ہے، اس کی اچھی اور بری ہر دو طرح کی وجوہات موجود ہیں۔

یہاں یہ بات باور کرانی بھی ضروری ہے کہ پاکستانی نظامِ حکومت چلانے والے حقیقی کارپردازان کا بڑا حصہ عملاً ہر طرح کے احتساب سے بالاتر ہو چکا ہے، احتساب کے اِس پھندے میں نچلے درجے کے چند بیوروکریٹ اور کچھ فراڈ قِسم کی ہاﺅسنگ سوسائٹیاں ہی پھنستی ہیں۔

یوں تو ملک میں بلا امتیاز احتساب کرنے کے لیے نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ادارے موجود ہیں لیکن جرنیلوں، ججوں ، سینئیر بیورو کریٹوں اور اب تو بڑے تاجروں تک کے معاملات بھی ان اداروں کے حیطہء اختیار سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔

آئیے ذرا اُس کرپشن کو ماپنے کی کوشش کریں جو پاکستانی سیاست میں اس اصطلاح کے چلن سے لے کر اب تک بھٹو خاندان اور خصوصی طور پر آصف علی زرداری–مہارت سے تراشی گئی کرپشن کی علامت — کے نام سے منسوب کی گئی۔اس کا آغاز 1987ء میں اُس وقت ہوا جب آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو سے شادی کر کے عوامی زندگی میں داخل ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو 33 برس کی عمر میں 1921ء میں بمبے پارلیمان کے کم عمر ترین رُکن تھے۔ 1921 سے لے کر 1933 تک وہ پارلیمانی وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1930ء میں انڈیا کے وائسرائے لارڈ ارون نے انہیں سَر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ وہ دو قومی نظریے کے سخت حامی تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1930-31 میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں انہوں نے تن تنہا سندھی مسلمانوں کی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیا اور سندھ کی بمبے سے علیحدگی جیسی اہم کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے نواب آف جونا گڑھ (انڈین گجرات) کے وزیر اعظم /دیوان کے طور پر نواب کو قائل کیا کہ وہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کریں یوں انہوں نے استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز مہیا کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ ان چالیس ہزار سے لے کر ڈھائی لاکھ ایکٹر زرعی زمین کے وارث تھے جو لاڑکانہ، جیکب آباد اور سکھر کے ارد گرد پھیلی تھی۔ پاکستان کے قیام کے آس پاس بھٹو خاندان جتنی زمین کا مالک تھا اس زمانے کے حساب سے بھی اس کی مالیت کئی ملین ڈالر کے مساوی بنتی ہے (اُس زمانے میں اوسطاً ایک ایکٹر زمین کی قیمت ایک ہزار روپیے تھی، ایک امریکی ڈالر 1946ء میں تقریباً پانچ روپیے کے مساوی تھا۔) اس زمین کا بڑا حصہ سر شاہنواز بھٹو نے 1935 سے 1955کے عرصے میں خریدا تھا۔

1946-47 کے زمانے میں (تقسیم سے پہلے) ذوالفقار علی بھٹو کو ایک لاکھ دس ہزار کی آمدنی تفویض کی گئی۔ اِس آمدن کا بڑا ذریعہ بمبئی کا مشہور آسٹوریا ہوٹل اور ”دی نیسٹ“ نامی خاندانی گھرسے حاصل ہونے والا کرایہ تھا (اِن دونوں عمارتوں کے مالک بھی سر شاہنواز بھٹو تھے۔ )سٹینلے والپرٹ کے بقول (قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کے سوانح نگار)

”جب اُس کے والد اور والدہ بیٹی کے ہمراہ جونا گڑھ منتقل ہو گئے تو زلفی بمبے میں اکیلا رہ گیا۔وہ اُس زمانے میں کارمیکیل روڑ پر واقع اپنے خاندانی گھر ”دی نیسٹ“ میں قیام پذیر تھا، اس کے علاوہ اسے بمبے کے مصروف کاروباری علاقے فورٹ میں واقع ایک اور بھٹو جائیداد، کئی منزلہ آسٹوریا ہوٹل کی دیکھ بھال بھی کرنی تھی، اُس زمانے میں اس عمارت کا خالص کرایہ ایک لاکھ دس ہزار روپیے تھے، -471946 کے زمانے میں ہر اعتبار اور پیمانے سے یہ رقم غیر معمولی تھی۔ اس کے علاوہ کئی سیکیورٹیز، قیمتی اشیاء اور نقد رقم بھی ذہین و فطین اٹھارہ برس کے ذوالفقار کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک دہائی کے بعد اُسے اپنے والد کی اس جائیداد کا اکیلا وارث بننا تھا۔“

بھٹو، جو ایک تجربہ کار قانون دان تھے، 18ستمبر1957ء کو چھوڑی گئی ان دونوں جائیدادوں کے عوض 4,430,400 (چوالیس لاکھ تیس ہزار چار سو) کا کلیم انڈین متروکہ املاک کمشنر سے منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ ابھی یہاں بھٹو خاندان کے ان اثاثوں اور قیمتی اشیاء کا ذکر نہیں کیا جا رہا جو راجہ آف جونا گڑھ کی طرف سے بھٹو خاندان کو ملیں (جس وقت تقسیم ہوئی اُس وقت سر شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے وزیر اعظم/ دیوان کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔(

یوں یہ بات کلی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو — سر شاہنواز بھٹو کی سلطنت کا اکلوتا وارث1957ء — میں سیاست کی پر فریب دُنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی روپیوں میں نہیں بلکہ امریکی ڈالروں کے حساب سے لکھ پتی تھا۔

اب ایک خفطنزیہ کہانی سنیے کہ اسی ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی اور سیاسی جانشین، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ہیروں کا ایک ہار، جس کی مالیت 0.175 ملین امریکی ڈالر تھی، منی لانڈرنگ اور کمیشن کی رقم سے سوئٹزرلینڈ میں خریدا۔ اسی طرح ان پر اور اُن کے شوہر، سابق صدر، آصف علی زرداری کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا کہ انھوں نے سرے، انگلستان میں راک وڈ اسٹیٹ چار اعشاریہ ایک ملین ڈالر میں خریدی ہے، یہ سب الزامات اُس وقت لگائے جا رہے تھے جب اس سے بھی کہیں بڑی مالیت کا کلیم ذوالفقار علی بھٹو کو، انڈیا میںمتروکہ املاک کمشنر سے منظور کرائے ہوئے چار دہائیاں گزر چکی تھیں۔

کرپشن کا ایک اور بڑا الزام جو سابقہ حکمران جوڑے پر لگایا گیا وہ مبینہ طور پر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ساٹھ ملین امریکی ڈالروں کا تھا، اس رقم کے بارے میں کہا گیا کہ یہ منی لانڈرنگ اور مختلف سودوں میں کمیشن کے عوض حاصل کی گئی تھی۔ لیکن حکومت پاکستان کا بیان کردہ ڈیٹا اور لگائے گئے الزامات اس حوالے سے بالکل ہی مختلف کہانی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس مبینہ کرپشن سکینڈل کا سب سے بڑا نقطہ پولینڈ سے خریدے جانے والے ارسس ٹریکٹروں کی خریداری کا معاہدہ بتایا گیا (اس میں مبینہ طور پر ایک اعشاریہ آٹھ ملین امریکی ڈالر بطور کمیشن وصول کیے جانے کی اطلاع دی گئی)، اس منصوبے میں 5900 ارسس ٹریکٹر کسانوں کو فی ٹریکٹر ڈیڑھ لاکھ روپیے کے عوض دیے جانے تھے، اِس مقصد کے لیے تمام ڈیوٹیز اور دیگر لوازمات سے استثنا دیا جانا تھا۔ اس کے بعد شور مچایا گیا کہ سوئس کمپنیوں ایس جی ایس / کوٹیکنا کو، جنہیں پاکستان میں درآمد ہونے والی اشیاءکی حقیقی مالیت کی جانچ پڑتال کے لیے تھرڈ پارٹی اندازہ قائم کرنا تھا، اور یہ دونوں کمپنیاں اِس کام میں عالمی شہرت یافتہ تھیں، یہ ٹھیکا دینے کے عوض ان سے دو ملین ڈالر کی مبینہ کمیشن حاصل کی گئی تھی۔ اگلا الزام اے آر وائے گولڈ (دس ملین ڈالر کمیشن، اس الزام کی اے آر وائے کے حاجی عبدالرزاق نے سختی سے تردید کی) کو 1994ء میں سونے کی درآمد کے خصوصی اجازت نامے کے عوض کمیشن کی وصولی کا لگایا گیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری کو وراثت میں بمبینو سینما اور سکالا پلازہ، صدر کراچی میں ملا، اس عمارت میں بتیس مختلف دفاتر کرائے پر دستیاب تھے۔ اس کے علاوہ زرداری خاندان سندھ میں کیلوں کے باغات سمیت بیس ہزار ایکڑ زرعی زمین کا مالک بھی تھا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ممبران میں شامل تھے اور وہ ,1988 1971,1977اور1993میں رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے با اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے 1971 میں انھیں چئیر مین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ جب بیگم بھٹو اور بے نظیر ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بچانے کے لیے قانونی جنگ لڑنے میں اور جِلا وطنی پر مجبور تھیں تو بھٹو صاحب کی جائیداد کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بھی حاکم علی زرداری نے ہی نبھائی تھیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی حاکم علی زرداری کو 1988ء میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چئیرمین مقرر کیا اور حاکم علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

حاکم علی اور اب آصف علی زرداری تیس ہزار نفوس پر مبنی زرداری قبیلے کے سربراہ ہیں اور ان لوگوں نے 1965ء کا انتخاب فاطمہ جناح کے پینل پر جنرل ایوب خان کے خلاف لڑا تھا۔ حاکم علی زرداری کو آمدن سے زائد اثاثوں کے جرم میں احتساب عدالتوں کی جانب سے سزا سنائی گئی لیکن انجام کار لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں تمام الزامات سے با عزت بری کر دیا گیا۔ اُن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے نارمنڈی، فرانس میں ایک جائیداد دو اعشاریہ ایک ملین امریکی ڈالروں کے عوض خریدنے کے لیے سرمایہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا تھا۔ انھوں نے بڑی کامیابی سے سندھ ہائی کورٹ میں ثابت کیا کہ انھوں نے یہ جائیداد خریدنے کے لیے سرمایہ اپنے فلم تقسیم کاری، کراچی حیدر آباد میں سینماﺅں اور مختلف انشورنس کمپنیوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری جیسے ذرائع سے حاصل کیا تھا۔

آئیے اب دیکھ لیتے ہیں کہ زرداری اور بھٹو خاندان کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر جس کرپشن کی تحقیقات کی گئیں اور جن کا اِتنا ڈھول پیٹا گیا اُس کی مالیت کتنی بنتی ہے۔ 1987ء سے پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں دس برس اور صوبہ سندھ میں اٹھارہ برس حکمران رہی۔اس حساب سے وفاق اور صوبے کی پیپلز پارٹی کی یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں نے موجودہ تناضر میں ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق تقریباً اکیس ہزار ملین امریکی ڈالر کا بجٹ خرچ کیا۔ پیپلز پارٹی حکومتوں کے اِس کل خرچ کردہ بجٹ میں سے جو ساٹھ ملین امریکی ڈالر مفروضہ کرپشن کر کے سوئس بینکوں میں رکھے گئے وہ 0.0019% بنتے ہیں (حکومتی وفاقی بجٹ/ریونیو کے جی ڈی پی کے 10.5فیصد سالانہ اوسط)۔

اب اس ”اتنی بڑی کرپشن“کا موازنہ ایک اور پہلو سے دیکھ لیجیے، اگر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور اُن کا خاندان چار ملکوں میں پھیلی ہوئی پاپا جونز پِزا چین قائم کر سکتا ہے، جس کی مالیت ساٹھ ملین امریکی ڈالر ہے (6300ملین روپیے) جس کے لیے خود اُن کا دعویٰ ہے کہ اس کام کے لیے بُنیادی سرمایہ 54,458امریکی ڈالر (تقریباً ساٹھ لاکھ روپیے ) تھا،اور گزشتہ اٹھارہ برسوں میں یہ سرمایہ 1050گُنا بڑھ چکا ہے (یہ انگشت بدنداں کر دینے والی بڑھوتری ہے۔)خود سوچیے اگر چند ہزار امریکی ڈالر کے بنیادی سرمائے سے یہ کچھ ہو سکتا ہے تو 1958میں جس بھٹو اور زرداری خاندان کو لکھوکھا امریکی ڈالر کا سرمایہ دستیاب ہو گا وہ لوگ کیا کچھ نہیں بنا سکتے تھے؟

بھٹو خاندان  63 برس قبل دستیاب اپنے بنیادی سرمائے کو کاروباری طریقے سے استعمال کرنے کے گُر اگر جنرل باجوہ اور اُن کے خاندان سے سیکھتا تو آج یہ لوگ ڈالروں میں ارب پتی ہو چکے ہوتے، اور اس سب پر مستزاد یہ کہ یہ لوگ بھی جنرل باجوہ اور ان کے خاندان کی طرح غیر علانیہ این آر او کے مزے بھی لوٹ رہے ہوتے۔

حتیٰ کہ جنرل مشرف بھی،جن کے بارے میں 2016ء میں انکشاف ہوا کہ اُن کے آف شور اکاﺅنٹس میں 2156 ملین روپیے (بیس ملین امریکی ڈالر) موجود ہیں ، جنرل باجوہ اور اُن کے خاندان سے کاروباری مشورے لیتا تو اگلے پندرہ برس میں وہ بھی ارب پتی بن سکتا تھا۔

https://www.humsub.com.pk/442950/imran-bajwa-11/

 

Over 2,400 women raped in Pakistan’s Punjab province in 6 months



M ZULQERNAIN

A total of 2,439 women were raped and 90 killed in the name of “family honor” during the last six months in the Punjab province of Pakistan, according to the data provided by the Punjab Information Commission.

In Lahore, the capital of the Punjab province with a population of 110 million, 400 women were raped and over 2,300 kidnapped during this period, the data said.


According to the Human Rights Commission of Pakistan (HRCP)’s recent report, in Pakistan, at least 11 rape cases are reported daily with over 22,000 such incidents reported to police in the last six years (2015-21).
The report states that society gives undue advantage to perpetrators by blaming victims. Instead of having a drop in the number of cases, there has been a sharp rise with an overall less than 1 per cent conviction rate.
“Only 77 accused of the 22,000 cases were found to be convicted and the conviction rate is around 0.3 per cent,” the report said.
“Sadly, rape culture is predominant in Pakistan – one that blames the victims of sexual assault and frames all men as naturally violent. Many are working to try to change this discourse, but it is an uphill battle,” Nida Kirmani, a professor at Lahore University of Management Sciences (LUMS) was quoted as saying in the report.
Last week, a man killed his married sister who was gang-raped in the Sargodha district, some 200 kilometres from Lahore.
The 28-year-old victim, a mother of five children, was raped by four suspects in a neighbourhood where she worked as domestic help. The alleged killer told the police that he shot dead her sister for dishonouring the family honour.
Pakistan has one of the highest numbers of documented and estimated honour killings per capita in the world.
An honour killing is the homicide of a member of a family or social group by other members, due to the belief the victim has brought dishonour upon the family or community. The death of the victim is viewed as a way to restore the reputation and honour of the family. Pakistani social media star Qandeel Baloch was strangled to death in 2016 by her brother who was upset by pictures she had uploaded to social media.Often dubbed the Kim Kardashian of Pakistan, Baloch, 26, had hundreds of thousands of followers on social media. She posted images and videos of herself twerking and singing, breaking strict taboos in socially conservative Pakistan.The shocking murder of Baloch by her brother had turned the spotlight on the epidemic of so-called ‘honour killings’ and sparked a fresh push to close loopholes allowing the killers to walk free.
The long-awaited legislation was finally passed three months later in a move cautiously hailed by women’s rights activists.
But years on, activists say honour killings are still occurring at an alarming pace in Pakistan.
According to the World Economic Forum, Pakistan is one of the worst countries in the world in terms of gender parity. Women hold fewer than 7 per cent of managerial positions.
Early marriage remains a serious issue in Pakistan, with 21 per cent of girls in the country marrying before the age of 18, and 3 per cent marrying before 15.
More than five million primary school-age children in Pakistan are not in school, most of them are girls, according to Human Rights Watch. 
https://theprint.in/world/over-2400-women-

Opinion: Pakistan’s past support for the Afghan Taliban isn’t paying off

By Hamid Mir

When the Afghan Taliban returned to power in Kabul in August, Pakistanis celebrated. Among many others, Prime Minister Imran Khan clearly saw the Taliban’s victory as a triumph for his country.

For years, observers have accused Islamabad of covertly supporting the Taliban. And for years, Pakistan has rejected such allegations, invariably citing its role as a vital U.S. ally throughout the war on terrorism. Yet Khan himself effectively confirmed what the critics have been saying by openly supporting the Afghan Taliban when it seized power — even though doing so clearly violated the agreement that it had negotiated with the United States in talks in Doha, Qatar.
Khan’s government evidently expected that the Afghan Taliban would do two things in return for Islamabad’s support: surrender Afghan-based insurgents who are fighting inside Pakistan against the Pakistani military and settle a long-running border dispute. So far neither one is happening. And that explains why Pakistan still hasn’t offered diplomatic recognition to the Taliban government in Kabul.
The biggest stumbling block is the status of the Tehrik-e-Taliban Pakistan (TTP), the offshoot of the Afghan Taliban that continues to wage war on Pakistani forces. Pakistan has been trying to get the Afghan Taliban to cut off its support for the group. After the fall of Kabul, top Pakistani officials expressed a willingness to announce an amnesty for the TTP if it laid down its arms and agreed to abide by Pakistan’s constitution. In November, the TTP agreed to secret talks and declared a one-month cease-fire. When Islamabad started its new round of negotiations with the group, I wrote that this was the seventh time the Pakistani state had tried talking with the TTP. Islamabad’s previous six agreements with the group had come to nothing.
The TTP presented a difficult list of conditions. Its leaders demanded the release of a long list of prisoners; it’s not clear whether the Pakistani government ever delivered. The TTP also declared that it wanted to open a political office in a third country (which would amount to a form of recognition for an organization that is banned in Pakistan). Most problematic of all, TTP negotiators demanded the implementation of Islamic sharia law in Pakistan — which meant they were not ready to accept the current constitution, which is based on democratic principles. What the TTP was demanding, in short, was the self-abolition of the state — a surrender agreement, in effect.
Yet government ministers claimed that the TTP had agreed on a cease-fire. Opposition parties in Parliament demanded that the government reveal details about the talks. A panel of judges publicly grilled Khan over his policy.
On Dec. 10, the TTP ended its cease-fire and resumed attacks against Pakistani forces. The Pakistani military tried to target TTP leaders in Afghanistan with drones. The TTP retaliated by attacking police in Islamabad. They were sending a message that they were willing to wage guerrilla war in Pakistani cities. The government, which is hard-pressed on other security issues, decided to restart talks. But so far there are no results. Notably, the Afghan Taliban has shown no willingness to intervene on Pakistan’s behalf.
And what about the border? The new Afghan government has shown zero willingness to acknowledge Islamabad’s concerns. The Afghan Taliban has explicitly refused to accept the current border between the two countries, which was drawn by the British empire during colonial days, effectively dividing the Pashtun ethnic group in two. Taliban soldiers have even tried to stop Pakistani troops from putting up fencing along the border. The Afghan Taliban has announced plans to build 30 extra outposts to prevent the movement of Pakistani troops along the frontier.
In short, the Afghan Taliban is now behaving like great liberators who broke the shackles of foreign occupation without help from anyone else. The Afghan Taliban refuses to acknowledge Pakistan’s many years of tacit and not-so-tacit support for the group’s fight. If Pakistani leaders were expecting some sign of gratitude, they’re still waiting.The bottom line is that the Afghan Taliban doesn’t trust Pakistan. Both have played double games with each other in the past. Now the Taliban is opening channels with India and Iran. It wants official diplomatic recognition for its new state, and it wants other countries to unfreeze Afghan funds that are held in foreign banks — but it also doesn’t want to meet the international community’s conditions. It recently had a golden opportunity to earn some goodwill with the international community when it met with Western officials in Oslo for three days last month. But the Taliban blew it. It denied involvement in the disappearance of some female activists — whose families persuasively blame the Taliban. The Taliban government in Kabul will have little hope of bolstering its relations with the West until it changes course.
But the Taliban isn’t listening to anyone — including Pakistan, which has annoyed many friendly countries by blindly supporting the Taliban over the years. On Sunday, the TTP killed five Pakistani soldiers — and openly accepted responsibility. Pakistanis’ patience is running thin. The question is how long Islamabad can go on ignoring reality.
https://www.washingtonpost.com/opinions/2022/02/08/pakistan-imran-khan-support-for-taliban-brings-no-results/

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا سابق گورنر، وفاقی وزیر اور پارٹی کے سینیئر رہنما شہید حیات محمد خان شیرپاوَ کو ان کے 47 ویں یومِ شہادت پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت


 کراچی (8 فروری 2022) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سابق گورنر، وفاقی وزیر اور پارٹی کے سینیئر رہنما شہید حیات محمد خان شیرپاوَ کو ان کے 47 ویں یومِ شہادت پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس کراچی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ شہید حیات محمد خان شیرپاوَ پارٹی کے بنیادی ارکان

میں سے ایک اور قائدِ عوام کے بااعتماد ساتھی تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ شہید حیات خان شیرپاوَ کی سابق صوبہ خیبرپختونخوا میں پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیئے کاوشیں ناقابلِ فرموش ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید حیات خان شیرپاوَ کو ایک گہنونی سازش کے تحت شہید کیا گیا،

 جس کا مقصد صوبے میں پی پی پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہید حیات محمد خان شیرپاوَ پارٹی قیادت اور کارکنان کی دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پی پی پی چیئرمین نے اپیل کی کہ جیالے آج اپنے ایک عظیم ساتھی شہید حیات محمد خان شیرپاوَ کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کریں۔

https://www.ppp.org.pk/pr/26228/