اگر ہم نے ہنگامی اقدامات نہ کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔
ہسپتال سے مسلسل 24 گھنٹے ڈیوٹی کر کے ابھی ہاسٹل پہنچا ہی تھا۔ اس دوران نہ سونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں، بنا کچھ کھائے پیے، میں بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا، ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ میسج آیا، میں نے دیکھا کہ میرے سینیئر ڈاکٹر تحسین کا میسج تھا۔
میں نے کھول کر پڑھا، اس پر لکھا تھا کہ ’شافع، بڑے بھائی فوت ہو گئے ہیں۔‘
ان کے بڑے بھائی کرونا (کورونا) وائرس سے متاثرہ تھے اور وینٹی لیٹر پر تھے۔ میں نے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی، اب نیند پھر مجھ سے روٹھ چکی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں گلا پھاڑ کر چیخوں، لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔
میں نے سوچا کہ فیس بک ہی سکرول کر لوں لیکن ایک انہونے خوف کی وجہ سے نہ کر سکا۔ اس خوف کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے فیس بک کا اکاؤنٹ دس پہلے بنایا تھا، ان دس سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سے ڈر لگنے لگا ہے۔ اب میں جب بھی فیس بک سکرول کرتا ہوں تو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کو کرونا ہو گیا، فلاں ڈاکٹر کرونا سے جان کی بازی ہار گیا، خیبر پختونخوا کی نرس کرونا کی وجہ سے انتقال کر گئی، میڈیکل سٹوڈنٹ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا۔
مجھے گذشتہ 24 گھنٹوں میں اس فیس بک نے تین ڈاکٹروں، ایک نرس اور ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کی وفات کی خبر دی ہے اور یوں مجھے فیس بک سے مزید ڈر لگنے لگ گیا ہے۔
وطن عزیز کے تمام ڈاکٹروں اور ان کی تنظیموں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ عید کے موقعے پر لاک ڈاؤن میں نرمی مت کریں، لیکن حکومت نے تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اوپر سے چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دے کر کہ ’عوام نے صرف عید پر نئے کپڑے پہننے ہوتے ہیں‘ لاک ڈاؤن ختم کروا دیا۔ لوگ جو بھوک سے مر رہے تھے، اب بازاروں پر ٹوٹ پڑے۔ غلطی حکومت کی ہے، عدلیہ کی یا عوام کی، لیکن اس غلطی کی سب سے زیادہ سزا ڈاکٹر بھگت رہے ہیں جو دھڑا دھڑ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں۔
بجائے اس کے کہ ڈاکٹروں کا حوصلہ بڑھایا جاتا، الٹا ان کے خلاف گھٹیا مہم شروع کر دی گئی۔ کہا گیا کہ ڈاکٹر کرونا کے مریضوں کو چیک نہیں کرتے، کرونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر خود مار دیتے ہیں، بعد میں ان کے گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹروں کی تضحیک کا طوفان برپا ہے۔
ان عقل سے عاری لوگوں سے کوئی پوچھے، اگر ڈاکٹر کرونا کے مریض نہیں چیک کر رہے، تو خود ڈاکٹروں کو کرونا کیسے ہو رہا ہے؟ اگر کرونا کے مریضوں کو مار کر یہ ڈالر لے رہے ہیں تو خود مر کر ان ڈالروں سے اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں؟
ایک طرف ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے، جو کرونا کے خلاف اگلے محاذ پر مورچے سنبھالے لڑ رہا ہے اور مر رہا ہے اور دوسری طرف عوام ہیں، جو ابھی بھی اس کو ڈراما اور یہودی سازش سمجھتے ہیں۔ یہ عوام عجیب ہے، جب وبا شروع میں تھی، انہوں نے نام نہاد لاک ڈاؤن پر عمل کیا، ماسک پہنے، بازار بند کیے، اجتماعات میں نہیں گئے، بے وقت اذانیں دیں، لیکن جیسے ہی وبا اپنی انتہا کو پہنچی، اس قوم نے ماسک پہننا چھوڑ دیے، بازار کھول دیے، اجتماعات ہونے لگ گئے، دل کھول کے شاپنگ کرنے لگے، ٹرانسپورٹ کھل گئی۔
اگر کرونا کی کوئی عقل ہے تو خود بھی اس قوم کی عقل پر ماتم کر رہا ہو گا۔ افسوس ناک ترین بات یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی انکاری ہے، جو ابھی بھی یہی سمجھتی ہے کہ ’کتھے اے کرونا؟‘ اور یہ کہ ڈاکٹر جھوٹ بول رہے ہیں۔
عید پر شاپنگ کرنے کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جس عوام کے سمندر نے شاپنگ کا رخ کیا تھا، اب یہی عوامی سمندر، بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری کی علامات لیے ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا رخ کر رہا ہے۔ پنجاب کی حد تک تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں مکمل بھر گئی ہیں، آئی سی یو میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی، جتنے وینٹی لیٹر تھے، وہ مریضوں کو لگ چکے۔ اب وینٹی لیٹروں کے لیے مریضوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہسپتالوں میں لواحقین وینٹی لیٹروں کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اب بندہ انہیں کہے کہ اور کرو شاپنگ!
پچھلے 24 گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے 20 ہزار سے زائد نئے کیسز آئے ہیں، جو کہ اٹلی، سپین اور چین کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، 57 لوگ اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں، لیکن بازاروں میں اسی طرح بھیڑ ہے۔
اس وقت سے ڈریں جب یہاں بھی اٹلی کی طرح دن میں سینکڑوں اموت ہوں گی اور ڈاکٹر چاہتے ہوئے بھی آپ کی جان بچا نہیں پائیں گے۔
ڈاکٹر حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بھی کرونا کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، اس عمل میں وہ خود کرونا کا شکار ہو رہے ہیں۔ میرے اپنے کئی سینئیر ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہوکر قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
کچھ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں، جو اپنے خاندان کے اکلوتے کفیل ہیں، انہیں اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو ان کے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ ان کی پریشانی بالکل جائز ہے۔ میرے بڑے بھائی جیسے سینئیر ڈاکٹر ارسلان کی کرونا وارڈ میں ڈیوٹی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے ملے ایک مہینے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ہم آٹھ دوستوں کی ڈیوٹی الائیڈ ہسپتال میں ہے، وارڈ مختلف ہیں، جب بھی کسی کی ڈیوٹی ہوتی ہے، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اس دوست کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے، یہ ہماری نہیں ہر ڈاکٹر کی کہانی ہے۔
مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے، میں اس ڈر کی وجہ سے باہر نہیں جاتا، بھیڑ والی جگہ نہیں جاتا۔ بازار گئے ہوئے عرصہ ہو گیا، لوگوں سے نہیں ملتا، ہر وقت ماسک پہنتا ہوں، ہاں اگر یہ سب اختیار کرنا بزدلی ہے، تو ہاں میں بزدل ہوں، ڈرپوک بھی ہوں، مجھے اس کرونا کی وجہ سے مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ میں جب بھی ڈیوٹی کرنے ہسپتال جاتا ہوں، میں دعائیں پڑھ کر جاتا ہوں۔ شاید ہر ڈاکٹر آج کل یہی کر رہا ہے۔
میں اب جب کرونا سے لڑتے کسی ڈاکٹر کی وفات کی خبر سنتا ہوں، میں روتا ہوں، اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں، میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوں، ابھی سنبھلتا ہی ہوں تو ایک اور افسوس ناک خبر آ جاتی ہے، میں پھر ٹوٹ جاتا ہوں، تین ہفتوں سے یہی کیفیت ہے۔
28 مئی: ایک دن میں کرونا وائرس سے جان دینے والے ڈاکٹر
1۔ ڈاکٹر ثنا فاطمہ (لاہور)
2۔ ڈاکٹر محمد سلیم (لاہور)
3۔ ڈاکٹر خانزادہ شنوری (ہنگو)
4۔ ڈاکٹر زبیر احمد (کوئٹہ)
5۔ ڈاکٹر سلمان طاہر (فورتھ ائر ایم بی بی ایس)
6۔ ڈاکٹر نعیم اختر (گوجرانوالہ)
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جو ڈاکٹر چلے گئے، انہیں ’شہید‘ کہنا کتنا آسان ہے۔ لیکن کیا شہید کہنے سے ان کے گھر والوں کے غم آسان ہو جائیں گے؟
میرا ارباب اختیار سے سوال ہے، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جو ڈاکٹرز مر رہے ہیں، ان کی ایف آئی آر کس کے خلاف کٹوائی جائے؟ ان کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا کسیے کیا جائے؟ کیا ڈاکٹروں اور نرسوں کی زندگیاں اتنی سستی اور بے وقعت ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی؟
اگر ڈاکٹروں پر رحم نہیں آتا تو ان کے خاندان والوں پر ہی رحم کر لیں۔ میری حکومت، چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ خدارا فی الفور لاک ڈاؤن کا اعلان کریں، اجتماعات، پبلک ٹرانسپورٹ پر دوبارہ پابندی لگائی جائے، بازاروں کو بند کیا جائے، ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔
اگر ہم نے ہنگامی اقدامات نہ کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔
میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ خدا کے لیے خود پر نہیں تو اپنے عزیزوں پر ہی ترس کھائیں۔ یہ شاپنگز، سینما دیکھنا اور دیگر تفریحات کرونا کے ختم ہونے تک موخر کر دیں۔ گھروں میں بیٹھیں، ماسک پہنیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔
ہاں، اگر آپ کو اب بھی یہ سب کچھ ڈراما اور یہودی سازش لگتی ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں۔ وہ آپ جیسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو کہ کرونا کو ڈراما کہتے تھے۔
نوٹ: اس تحریر کے مصنف فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ ان کے سینیئر ڈاکٹر تحسین کے بڑے بھائی کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ان کے فوری غم میں یہ تحریر لکھی گئی۔
No comments:
Post a Comment