خیبر پختونخؤا کے ضلع صوابی میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سرکاری ذرائع کے پاس صرف ان لوگوں کا ریکارڈ ہے جو یا تو خود ٹیسٹ کروانے جاتے ہیں، یا جن کے بارے میں عوام اداروں کو مطلع کرتے ہیں۔
ان خدشات کا اظہار صوابی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا ہے اور اپنے اپنے علاقے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کے بیشتر گاؤں اس وائرس کے لپیٹ میں آچکے ہیں۔
ان میں پابینی، پنجمن، جھنڈا، بوقو، پلوڈنڈ، ڈاگئی، سلیم خان، تلاندئی، کرنل شیر کلے، چھوٹا لاہور اور دیگر کئی گاؤں شامل ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس کس قدر تیزی سے ملک کے دور افتادہ علاقوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر کلیم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پورے ضلع صوابی میں اس وقت کرونا وائرس کے کل مشتبہ افراد کی تعداد 514 ہے جن میں مثبت کیسز کی تعداد 159 ہے ۔جب کہ 50 لوگوں کے ٹیسٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
’297 لوگوں کے رزلٹ نیگیٹیو آچکے ہیں۔ 75 لوگوں کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ اور 73 لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ‘
ڈاکٹر کلیم اللہ نے بتایا کہ ضلع صوابی میں اب تک کرونا وائرس سے 11 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔
’لوگوں کی فون کالز روزانہ موصول ہورہی ہیں اور روزانہ عوامی شکایات کی بنیاد پر آٹھ ، نو لوگوں کو ہم ہسپتال بھجواتے ہیں۔لیکن دوسری جانب لوگوں میں لاپرواہی اور شعور کی کمی بھی ہے۔ لوگ ٹیسٹ دینے سے ڈر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ٹیسٹ لینے کے لیے ناک میں انجیکشن لگاتے ہیں، حالانکہ اصل میں ڈاکٹرانجیکشن نہیں لگاتے بلکہ ’سواب‘ لیتے ہیں جس سے لوگ خواہ مخواہ ڈر گئے ہیں۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق کیسز میں اضافہ عید سے پہلے لاک ڈاون میں نرمی کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ دیہات میں شروع وقت سے حکومتی تاکید اور ہدایات کو بالائے طاق رکھ کر زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ تاہم جب حکومت کی جانب سے لاک ڈاون میں سختی کی گئی اور عوامی ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا گیا تو وائرس پھیلنے کی روک تھام بہت حد تک ممکن ہوئی۔
عید سے پہلے لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد نہ صرف ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے میں ٹرانسپورٹ کی بندش ختم ہوئی بلکہ متاثرہ افراد اپنے ساتھ وائرس بھی لے گئے۔
دوسری جانب ماسک پہننے کا کوئی رجحان نہیں پایا جارہا ہے۔ گھروں میں تقریبات جاری ہیں جن میں دوست احباب کو مدعو کیا جارہا ہے اور و ہ بخوشی قبول کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی میں شدت پکڑنے کے ساتھ لوگوں نے دریاؤں اور نہروں کا بھی رخ کر لیا ہے ، ان میں ایک مشہور جگہ پیہور کینال ہے جہاں پر مرد حضرات مزے لے لے کر بغیر کسی ڈر و خوف کے نہاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
صوابی کے ایک گاؤں مینی کے رہائشی بہادر شیر کا کہنا ہے کہ پڑوس کے ایک گاؤں پابینی میں دو ڈاکٹروں اور ان کے ایک دوست جو میڈیکل ٹیکنیشن ہیں اور گاؤں میں ایک کلینک چلاتے ہیں ان کو یہ وائرس لگ گیا تھا۔ جو ان کی فیمیلیز میں بھی منتقل ہو گیا۔ بہادر شیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ وائرس کئی اور لوگوں میں بھی منتقل ہوا ہوگا۔
ضلع صوابی کے ایک رپورٹر امیر اختر کے مطابق جن دنوں تمام صوبے میں مکمل لاک ڈاؤن تا ان دنوں میں بھی صوابی میں دکانیں اور بازار کھلے رہے۔ جو دکانیں بند تھیں وہ یا تو مرکزی شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے پولیس کے خوف سے بند تھیں یا پھر کچھ لوگوں نے اپنے بچاؤ کی خاطر خود بند رکھیں۔
کیا لاک ڈاون دوبارہ لاگو کرنے یا اس میں سختی لائے جانے کا امکان ہے اس حوالے سے جب مشیر اطلاعات اجمل وزیر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ لاک ڈاؤن دوبارہ لگانے کے حوالے سے کوئی ارادہ نہیں رکھ رہے البتہ آئندہ میٹینگز میں وہ مشترکہ مشاورت سسے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
’ایک طرف کرونا وائرس ہے تو دوسری طرف معیشت ہے۔ ہم ایک سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور دوسرے کو بچا رہے ہیں۔ اس لیے ہمارا زیادہ زور عوام میں شعور بیدار کرنے پر ہے۔ اگر وہ تعاون کریں تو کام آسان ہو جائے گا ورنہ مریضوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔'
'میں کل صدر بازار کا جائزہ لینے گیا اتنی خواتین تھیں کہ میں حیران رہ گیا۔ دکانداروں کو دیکھا وہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ نتیجتاً ہمیں سختی کرنی پڑے گی۔ ‘
اگر کرونا وائرس کیسز کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض اضلاع جیسے کہ پشاور، مردان، چارسدہ، سوات، بونیر، دیر اور ملاکنڈ میں یہ تعداد صوابی سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لیے عوام کے باشعور طبقے کا کہنا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن میں بروقت دوبارہ سختی لائی گئی تو صوابی اور کم کیسز والے دیگر علاقوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment