پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب اس کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ اور وسائل کم پڑنے لگے ہیں۔
ملک کے بعض ہسپتالوں میں حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے پاس کووڈ 19 کے مزید مریضوں کا علاج کرنے کے لیے گنجائش ختم ہوچکی ہے یا انھیں اس حوالے سے خدشات ہیں۔ اس طرح نئے آنے والے مریضوں کو شہر کے کسی دوسرے ہسپتال بھیجا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر اب تک خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں، حکام کے مطابق، سب سے زیادہ 43 فیصد وینٹیلیٹر اور بستروں پر مریض پہلے سے موجود ہیں۔ جبکہ صوبہ سندھ میں حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے صرف کچھ ہسپتالوں میں سہولیات بچی ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 64 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ اس مرض سے اموات کی تعداد 1300 سے زیادہ ہے۔
ادارے کی جانب سے پیش کردہ 20 مئی کے اعداد و شمار کے مطابق کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے ملک کے 726 ہسپتالوں میں 20 ہزار 960 بیڈ مختص کیے گئے تھے۔ اس وقت تقریباً 11 ہزار مریض موجود تھے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں کورونا کے لیے مختص 50 فیصد سہولیات پہلے سے زیر استعمال ہیں۔ ممکن ہے کہ کورونا کے نئے مریضوں کی آمد کے بعد یہ تعداد مزید کم ہوچکی ہوگی۔
پشاور/خیبرپختونخوا میں صورتحال
صوبہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ متاثرین کا تعلق پشاور سے ہے۔ قومی ادارہ صحت کی 20 مئی کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں 47 فیصد وینٹیلیٹر، جو کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے تھے، زیر استعمال ہیں۔
پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا وائرس کے لیے مختص بیڈ اور آئسولیشن سینٹروں میں 90 مریضوں کے لیے بیڈ مختص ہیں جن میں سے 85 بیڈ پر مریض موجود ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کملیکس کی ترجمان توحید ذوالفقار نےبتایا ہے کہ صوبے میں اس وقت سب سے زیادہ مریض چونکہ یہاں آرہے ہیں اس لیے اب وہ مزید آنے والے مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھیج رہے ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس صوبے کا واحد ہسپتال ہے جہاں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج پلازما تھیراپی سے کیا جا رہا ہے۔
توحید ذوالفقار کے مطابق اس وقت وہ ان مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جو پہلے سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ اس لیے وہ نئے مریضوں کو اب داخل نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف بیڈز کی فراہمی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انھیں آکسیجن اور وینٹیلیٹر بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر شہروں سے بھی مریض ان کے ہسپتال بھیجے جا رہے ہیں جس سے یہاں ایچ ایم سی میں بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اس لیے وہ اب مزید مریضوں کو داخل نہیں کر رہے۔
اس وقت یہاں آٹھ مختلف وارڈز کے بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے جا چکے ہیں۔ صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر زبیر کے مطابق جس رفتار سے کورونا وائرس کے مریض سامنے آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بہت جلد پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں مختص تمام بیڈز پر مریض آ جائیں گے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حکام کے مطابق یہاں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) سمیت 105 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جہاں اس وقت تک 33 مریض داخل ہیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں 13 مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ باقی مریضوں پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 25 وینٹیلیٹر مختص کیے جا چکے ہیں جن میں سے 17 مریض ایسے ہیں جو اس وقت وینٹیلیٹرز پر ہیں جبکہ آکسیجن کی فراہمی ہر بیڈ پر یقینی بنائی جا چکی ہے۔
یاد رہے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بڑی تعداد میں ڈاکٹر اور دیگر عملہ اس وائرس سے متاثر ہوا ہے ان میں امراض نسواں کے وارڈ کا عملہ بھی شامل ہے جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں کھول دیا گیا۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق اب ہسپتال میں تمام وارڈز میں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا چکی ہے جہاں روزانہ 70 بڑے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
محمد عاصم نے بتایا کہ اس وقت تک ان کے پاس بیڈز موجود ہیں لیکن ’اگر مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس بھی جگہ کم پڑ جائے۔‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں کل 63 بیڈ رکھے گئے ہیں جن میں لگ بھگ پچاس فیصد بیڈز پر مریض موجود ہیں۔ کے ٹی ایچ کی ترجمان عالیہ نے بتایا کہ ان کے پاس بھا اس وقت تک مریضوں کے لیے بیڈز اور دیگر تمام ضروریات موجود ہیں۔ اس ہسپتال میں آیسو لیشن کے 15 کمرے سٹاف کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صرف پانچ کمرے عام لوگوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بلوچستان میں صورتحال کیا ہے؟
کوئٹہ سے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق علاقے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں آئیسو لیشن سینٹرز کی تعداد 71ہے۔ ان میں سے 13 کوئٹہ میں واقع ہیں جبکہ باقی بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہیں۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے 13 آئسولیشن مراکز میں سے 927 بستروں کی سہولت ہے جبکہ باقی 58 مراکزمیں 680 بستروں کی سہولت ہے۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے مطابق کوئٹہ میں آئسولیشن کی سہولیات کو بڑھا کر چار ہزار کیا جائے گا۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 73وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 24کورونا کے مریضوں کے لیے مخصوص ہیں۔
تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان ڈاکٹر رحیم بابر کے مطابق ان کے علم میں یہ بات نہیں کہ آیا بلوچستان میں وینٹیلیٹرز کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وینٹیلیٹرز کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سول ہسپتال سے 12 اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال سے آٹھ وینٹیلیٹرز کو شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے چھ فعال ہیں۔
بلوچستان میں کورونا کے نئے متاثرین سامنے آنے کے بعد حکومت نے اس ہسپتال کو کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کردیا تھا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان کے مطابق شیخ زید ہسپتال کوئٹہ 215 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے جس میں کورونا کے صرف 28مصدقہ اور 22 مشتبہ مریض زیر علاج ہیں۔
فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 80 بستر مخصوص ہیں۔
ہسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر نے بتایا کہ ہسپتال میں اس وقت کورونا کے 40 مریض زیر علاج ہیں جبکہ مزید 40 مریضوں کے داخلے کی گنجائش ہے۔
بلوچستان میں ابھی تک کورونا کا کوئی ایسا مریض سامنے نہیں آیا جسے کسی ہسپتال میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے داخل نہ کیا گیا ہو۔ تاہم مریضوں کے رشتہ داروں کی جانب سے یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی ہے اور ان کا عملہ مریضوں کا قابلِ اطمینان خیال نہیں رکھتا۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان نے لیاقت شاہوانی نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کورونا سے متاثرہ 2200 افراد اپنے گھروں میں آئسولیشن میں ہیں۔
پنجاب میں صورتحال
پنجاب میں 22 ہزار سے زیادہ کورونا کے مریض موجود ہیں۔ رواں ماہ کی 10 تاریخ کو اخبار ڈان کی خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے بھر میں 54 فیصد بیڈز کورونا کے مریضوں کے زیر استعمال ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب کے تین بڑے شہروں لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے مختلف ہسپتالوں میں کل لگ بھگ 1200 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جن میں 300 کے قریب وینٹیلیٹر ہیں۔
ان تین شہروں میں 40 سے 45 فیصد تک بیڈز پر مریض موجود ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے میو ہسپتال میں 420 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختصں ہیں جہاں 70 فیصد تک بیڈز پر مریض موجود ہیں۔
میو ہسپتال کے ڈاکٹر راشد ورک نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’(ہسپتال میں) گنجائش ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ ای این ٹی کا کوئی مریض آج ہسپتال میں داخل کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا۔‘
جیو کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہپستال میں تقریباً تمام بیڈز زیر استعمال ہیں۔
قومی ادارہ صحت کی 20 مئی کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں کووڈ 19 کے لیے مختص 20 فیصد وینٹیلیٹر پہلے سے زیر استعمال ہیں۔
صوبہ سندھ میں صورتحال
اس وقت صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض موجود ہیں جن کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جمعرات کو کہا تھا کہ کیسز کا بڑھنا عوام کی جانب سے احتیاط نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
صوبے کے دس بڑے ہسپتالوں میں جمعرات تک 13 ہزار سے زیادہ مریض زیر علاج تھے۔
ذرائع ابلاغ میں شائع سرکاری معلومات کے مطابق 200 سے زیادہ مریضوں کی حالت تشویشناک ہے جن میں لگ بھگ 40 مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں۔ صوبے میں 60 وینٹیلیٹر اب بھی دستیاب ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت انتہائی کم بیڈ خالی پڑے ہیں۔
یہ خدشتہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر اسی رفتار سے کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ چند خالی بیڈ بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں کے لیے کم ہوں گے۔
صوبہ سندھ میں کراچی سمیت بڑے شہروں میں سرکاری اور نجی سطح پر 10 ایسے طبی مراکز ہیں جہاں اس مرض کا علاج کیا جاتا ہے اور ان شہروں میں صحت کی سہولیات دیگر تمام صوبوں کے طبی مراکز سے بہتر ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف شہروں سے مریض علاج کے لیے کراچی کو ترجیح دیتے ہیں۔
کراچی میں اس وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں صحت کی سہولیات اب کم پڑ رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment