Sunday, March 1, 2020

مہنگائی کا گھوڑا - Pakistan



پی ایچ ڈی کے ایک زرعی اسکالر نے پی ایچ ڈی کا تھیسس ایک ایسے کیڑے پر لکھا جو پہلے دریافت نہیں ہوا تھا۔ دنیا بھر کے زرعی سائنسدان حیران تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کیڑے کا تعلق کیڑوں کی کونسی نسل سے ہے۔ بڑے بڑے ماہرین جمع ہوئے۔ 
کئی ممالک کے سائنسدان اِس کیڑے کو دیکھنے آئے۔ سائنس کے انٹرنیشنل میگزینز میں اس کیڑے کے حوالے سے مضامین شائع ہوئے۔ بحث چھڑ گئی۔ ایک دن ایک سینئر سائنسدان نے تجویز دی کہ کیوں نہ اس کیڑے کا ایکسرے کرایا جائے۔ ایکسرے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کا سر فلاں کیڑے کا ہے، اس کی ٹانگیں فلاں کیڑے سے لی گئی ہیں، باقی باڈی فلاں کیڑےکی ہے اور انہیں مصنوعی طور پر آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ 
پھر اُس ماہرِ حشرات کی جو سبکی ہونا تھی، ہوئی۔ اِسی سے یاد آیا کہ کالج کے دنوں میں ہمارے ایک دوست نے بھی کاکروچ پر تجربہ کیا تھا۔ اس نے کاکروچ پکڑا اور ٹیبل پر چھوڑ دیا۔ سہمے ہوئے کاکروچ نے کوئی حرکت نہ کی۔ اس نے میز پر پین سے ٹھک ٹھک کی تو کاکروچ بھاگ پڑا۔ اس نے پھر پکڑا اور اس کی ایک ٹانگ توڑ دی۔ 
پھر ٹھک ٹھک کی تو وہ تین ٹانگوں سے چلنے لگا۔ پھر دوسری ٹانگ توڑ دی اور ٹھک ٹھک کی۔ وہ ذرا سا چلا۔ پھر تیسری ٹانگ توڑ دی تو کاکروچ نے ایک ٹانگ پر چلنے کی کوشش کی۔
 اس نے چوتھی ٹانگ بھی توڑ دی اب ٹھک ٹھک کرنے پر کاکروچ نے کوئی حرکت نہ کی تو اس نے کاغذ پر لکھا ’’تجربے سے ثابت ہوا کہ کاکروچ کی چاروں ٹانگیں توڑ دی جائیں تو وہ سننے کی حس سے محروم ہو جاتا ہے‘‘۔
ہمارے ملک میں ایسے اعلیٰ دماغ گلی گلی میں موجود ہیں۔ جب ڈینگی صاحبہ سری لنکا سے پاکستان تشریف لائیں اور اپنا کام دکھانا شروع کیا تو ہمارے عظیم ماہرین مقابلے میں آ گئے۔ 
جگہ جگہ اپنا علم بکھیرنے لگے۔ (یہ وضاحت بڑی ضروری ہے کہ ڈینگی مچھر کی صرف مادہ کاٹتی ہے۔ اس کا نر تو بڑا ہی شریف النفس واقع ہوا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں کہتا)ڈینگی بخار کو کسی نے ’’ڈبل ملیریا‘‘ کہہ کر اس کا علاج ’’مٹھے‘‘ بتایا تو مٹھے بازار میں مفقود ہو گئے۔ (مٹھا مالٹے کی شکل کا ایک پھل ہے)۔ کچھ ماہرین نے انار کے جوس میں لیموں کے تین قطرے ملانے کا فارمولا پیش کیا۔ 
ایک جاننے والے نے جب بتانے والے سے کہا ’’اس سے تو مریض کو کوئی فرق نہیں پڑا‘‘ تو اس نے کہا ’’مجھے شک ہے آپ نے انار کے جوس کے ایک گلاس میں تین کے بجائے چار قطرے ملا دیے ہوں گے‘‘۔ کئی مریضوں کو تو انار کا جوس پلا پلاکر شوگر کا مریض بنا دیا گیا۔ کچھ ماہرین پپیتے کے پتوں کا جوس لے کر میدان میں اتر آئے مگر یہ جوس کسی حد تک پلیٹ لیٹس کو بہتر کرنے لگا۔ 
کہتے ہیں کہ پپیتا کھانے سے انسان کی قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے۔ یہ جملے لکھتے ہوئے میں خود کو انہی ماہرین میں محسوس کر رہا ہوں مگر کیا کروں۔ بزرگوں کی روایات بیان کرنا ہماری اجتماعی سائیکی میں شامل ہے۔پاکستان میں کرونا وائرس کے دو مریضوں کے علاج کیلئے دو لاکھ سے زائد ماہرین سامنے آ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نسخوں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ 
کسی نے لکھا ہے ’’خالی پیٹ ایک پیاز کھا لینے سے کرونا وائرس ختم ہو جاتا ہے‘‘ تو کوئی دل جلا پکار اٹھا ہے ’’خدا کی قسم پیاز کرونا وائرس کا علاج نہیں۔ اس کی قیمت پانچ سو روپے فی کلو مت کرائیے‘‘۔ ہندو سادھوئوں نے بھی کہا ہے کہ نہار منہ گائے کا پیشاب پینے سے کرونا وائرس مر جاتا ہے۔
 بابوں نے بھی دیواروں پر لکھوانا شروع کر دیا ہے۔ ’’کرونا وائرس کا شرطیہ علاج۔ چینی بابا پنگ پانگ‘‘۔ انٹرنیشنل سروے کے مطابق پچھلے بہتر گھنٹوں کے دوران کرونا وائرس کے سب سے زیادہ ماہرین پاکستان میں دریافت ہوئے۔ ایسے ایسےاعلیٰ نسخہ جات نظر سے گزرے ہیں کہ عقل دنگ رہ گئی ہے۔
گزشتہ روز ہماری مسجد میں بھی کرونا وائرس کی وجہ سے جھگڑا ہو گیا۔ دو نمازی آپس میں لڑ پڑے۔ ایک نمازی نے بتایا کہ وضو کرنے سے کرونا وائرس اثر انداز نہیں ہوتا۔ چینی صدرنے چینی مسلمانوں سے کہا ہےکہ تمام چینیوں کو وضو کرنے کا طریقہ سکھائیں۔
 دوسرے نمازی نے کہا ’’نہیں بھئی وضو کی عظمت اپنی جگہ پر مگر یہ خبر غلط ہے، اِس کی تردید آ چکی ہے‘‘۔ اُس نمازی نے تردید کرنے والے نمازی پر فوراً کفر کا فتویٰ داغ دیا اور پھر مسجد میں دونوں دست و گریباں ہو گئے۔ مجھے یاد آیا کہ یورپ جب بلیک ایجز میں تھا تو دو پادری اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ بائبل کی روشنی میں گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ 
ایک کہہ رہا تھا ’’بتیس‘‘ دوسرا کہہ رہا تھا ’’نہیں چھتیس‘‘۔ قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے کہا ’’بائبل کو چھوڑئیے۔ گھوڑا موجود ہے، منہ کھول کر اس کے دانت گن لیجئے‘‘ دونوں پادریوں نے فوراً کہا کہ یہ شخص بائبل کا منکر ہے اور پھر اس جرم میں مشورہ دینے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ حکومت سے بھی یہی درخواست ہے کہ مہنگائی کے گھوڑے کے دانت گن لیجئے۔

No comments: