ریاض سہیل
بلوچستان کے علاقے نوشکی کے نوجوان مزار خان ساسولی کی گذشتہ برس دس سال بعد رہائی
لاپتہ افراد کی واپسی سیاسی ضرورت
بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس دستیاب فہرست کے مطابق ابھی تک صرف 275 کے قریب افراد واپس آئے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں 5128 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی تھی اور عمران خان کی حکومت کی مشروط حمایت کے لیے پیش کیے چھ نکات میں سے ایک نکتہ لاپتہ افراد کی واپسی بھی تھی۔
موجودہ حکومت میں گمشدہ افراد کی واپسی کا آغاز ہوا تاہم یہ عمل بھی سیاسی ضروریات کے تحت نظر آتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت تک 500 افراد گھروں کو واپس آچکے ہیں لیکن انہوں نے جو فہرست پیش کی تھی اس میں سے صرف اکا دکا ہی واپس آئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’اس ملک کی یہ ہی روایت ہے کہ جب کوئی کام یاد آتا ہے تو پھر ضرورت پڑتی ہے، رواں مالی سال کے بجٹ سیشن کے وقت 450 افراد واپس آئے اس کے بعد 52 افراد رہا ہوئے ہیں۔
بازیاب افراد کی اکثریت اسی حکومت میں لاپتہ ہوئی
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس دستیاب بازیاب ہونے والے 275 افراد کی فہرست کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی اکثریت یعنی 101 افراد موجودہ حکومت کے دور یعنی 2018 اور 2019 کے نصف میں ہی لاپتہ ہوئے اور چند ماہ کے بعد انھیں رہائی حاصل ہوئی۔ تاہم طویل عرصے سے لاپتہ افراد میں سے ابھی اکثریت کی بازیابی نہیں ہوئی ہے۔
اصغر بلوچ کا شمار بھی ان لاپتہ افراد میں ہوتا ہے جنھیں پہلے مرحلے میں یعنی سنہ 2000 میں مبینہ طور پر جبراً لاپتہ کیا گیا۔ ان کے بھتیجے نصراللہ بلوچ نے چچا کی گمشدگی کے خلاف احتجاج کیا۔ دیگر متاثرین کے ساتھ مل کر وائس فار مسنگ پرسنز کا قیام عمل میں لائے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے لیکن ان کے چچا واپس نہیں آئے اور موجودہ حکومت میں جب لاپتہ افراد کی واپسی کا آغاز ہوا تو ان میں بھی ان کے چچا شامل نہیں۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے کوآرڈینیٹر فرید شاہوانی کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی واپسی مثبت پیش رفت ہے لیکن اس میں کبھی تیزی آجاتی ہے اور کبھی سست رفتاری رہتی ہے صرف رواں سال میں 53 افراد بازیاب ہوچکے ہیں تاہم جو لوگ واپس آرہے ہیں ان کی اکثریت وہی ہے جو 2018 اور 2019 کو اٹھائے گئے تھے۔
لواحقین کمیشن سے ناخوش
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا آغاز 2000 سے ہوا تقریباً 10 سال کے بعد 2011 میں جبری گمشدگیوں کا پتہ لگانے کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کرچکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1977 جبری لاپتہ افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2019 تک 6500 سے زائد افراد کی گمشدگی کی شکایات آئیں جن میں سے 4365 نمٹائی گئیں، 872 کو فہرست سے نکال دیا گیا، 3500 کے قریب کا سراغ لگایا گیا، 501 جیلوں اور 810 حراستی کیمپوں میں زیرِ حراست ہیں۔
جبری گمشدگی کے بارے میں کمیشن کا دعویٰ ہے کہ لاپتہ افراد میں سے 205 افراد کی لاشیں ملیں ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی تعداد کئی گنا زیادہ بتاتی ہیں۔ ایچ آر ایس پی کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 90 مسخ شدہ لاشیں ملیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت نے مذاکرات کے دوران انھیں پیشکش کی تھی کہ ان کی پیش کردہ فہرست پر کمیٹی بناتے ہیں یا کمیشن کے حوالے کرتے ہیں لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس کی مخالفت کی کیونکہ کمیشن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ یہ کوئی مثبت پیش رفت نہیں کرسکا ہے۔
بلوچستان حکومت بھی کوشاں
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے جب قومی اسمبلی میں گمشدگیوں کے مسئلے کو اٹھایا تو ان کے اس اقدام میں صوبے میں سیاسی سطح پر سراہا گیا نتیجے میں ان کے سیاسی مخالف جام کمال پر بھی سیاسی دباؤ آگیا۔
نصراللہ بلوچ کے مطابق جام کمال نے انھیں بتایا کہ وہ ان کی فراہم کی گئی فہرست وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت دیگر اداروں کے سربراہان کے پاس لے جائیں گے بعد میں ان سے ملاقات سے واپسی پر ایک طویل نشست ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’جام کمال نے آگاہ کیا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ تصدیق شدہ فہرست حاصل کریں اس پر عملدرآمد ہوگا، ہم نے انھیں 450 افراد کی فہرست پیش کی جس میں سے نصف کے قریب لوگ بازیاب ہوچکے ہیں۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اسلم رئیسانی سے بات ہوتی تھی تو ان کا یہ ہی جواب ہوتا تھا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔‘
بلوچستان میں ملکی اور غیر ملکی ایجنسیاں سرگرم
بلوچستان حکومت اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے درمیان ملاقات میں صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو بھی موجود تھے، بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر تنظیم نے 290 افراد کی فہرست پیش کی تھی جب اس میں پیش رفت ہوئی تو لوگوں کا اعتماد بڑھ گیا اور اس فہرست میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ تعداد 350 تک پہنچ گئی جن میں سے 300 کے قریب لوگ واپس آچکے ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ باقی لوگ بھی واپس آجائیں۔
وہ کہتے ہیں ’بلوچستان میں گریٹ گیم جاری تھا۔ تین ممالک کی ایجنسیاں سرگرم ہیں اور ہماری ایجنسیاں بھی کام کر رہی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کہاں گئے کسی بیرونی ایجنسی کے پیرول پر چل گئے، دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ چڑھ گئے اگر وہ ہمارے ملک کی ایجنسیوں کے کسی تفتیشی عمل سے گذر رہے ہیں تو وہ بازیاب ہوتے چلے گئے باقی بھی ہوں گے۔
تحریک انصاف حکومت میں 1216 افراد کی جبری گمشدگی
ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی دورِ اقتدار کے 17 ماہ میں 1216 افراد کی جبری گمشدگی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبری گمشدگی کے بارے میں کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے دوران اگست سے لیکر دسمبر تک 416 جبکہ 2019 میں مزید 800 افراد کی جبری گمشدگی کی شکایت درج کی گئیں ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان کے کوآرڈینیٹر فرید شاہوانی کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ جاری ہے لیکن اب یہ واقعات رپورٹ کم ہو رہے ہیں لواحقین سوچتے ہیں کہ ہوسکتا ہے واپس آجائیں کیونکہ اب دو تین ماہ کے بعد کئی لوگ واپس آجاتے ہیں۔
فرید کہتے ہیں ’جو واپس آرہے ہیں بات کرنے کو تیار نہیں ہیں وہ کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، پنجگور اور تربت میں بعض ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ جو لوگ اٹھائے گئے تھے وہ رہا ہوئے اور بعد میں دوبارہ اٹھالیے گئے۔
پاکستان کی وزارت انسانی حقوق کی سربراہ شیریں مزاری کہہ چکی ہیں کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کی جائے گی، حکومت قانون سازی بھی کر رہی ہے، تاہم بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ ابھی تک ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جس کی جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی ہو۔
وہ پہاڑوں پر چلے گئے ہیں، لاپتہ نہیں
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا دعویٰ ہے کہ موجودہ وقت مسنگ پرسنز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے آج سے دس پندرہ سال قبل لوگ افغانستان اور کمشیر جہاد کے لیے چلے جاتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں ایک روایت ہے کہ جب وہ لڑائی کرتے ہیں تو پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں وہ لاپتہ افراد نہیں ہیں۔
اعجاز شاہ کہتے ہیں ’جو اعداد و شمار ہیں ان میں بھی بڑا ابہام ہے۔ کتنے لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں، میرے پاس بھی ان کی صحیح تعداد نہیں۔ ایجنسیوں کے پاس کچھ اور تعداد ہے، پولیس، سویلین انتظامیہ اور سیاسی قیادت کے پاس الگ الگ تعداد ہے، کوئی شکایت ہے تو ہم اس کو سن رہے ہیں لیکن یہ اب کوئی ایشو نہیں ہے۔ جو پرانے کیسز ہیں ان کو حل کرنے کے لیے تمام کوششیں کر رہے ہیں کچھ لوگوں کا سندھ میں پتہ لگایا گیا اور کچھ کا بلوچستان میں وہ اب جاچکے ہیں۔‘
انسانی حقوق کمیشن نے گذشتہ سال اکتوبر میں بلوچستان پر اپنے جائزہ رپورٹ میں ڈیرہ بگٹی اور آواران سے خواتین اور بچوں کی گمشدگی کا بھی ذکر کیا ہے، اس رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں، جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے اور اس میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔
No comments:
Post a Comment