جب بھی ہم کسی بڑی آفت کا شکار ہوتے ہیں، اس کا مل جل کر حل سوچنے کی بجائے ہم مضحکہ خیز سازشی نظریات میں سینگ الجھا لیتے ہیں۔
مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ جتنا ہم جدید دور میں داخل ہو رہے ہیں ہماری جہالت اتنی ہی بڑھتی چلی رہی ہے۔ لوگ اس کا الٹا سمجھیں گے اور ان کو اجازت ہے کہ ایسا سوچیں۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ جس رفتار سے معلومات کے ذرائع بڑھتے ہیں، ہماری جہالت اسی شرح سے پھیل رہی ہے۔
کسی بھی آفت کی صورت میں ہم ابتدا میں اس کے وجود سے ہی انکاری ہوتے ہیں۔ جب اس وہ سر اٹھا کر سامنے آ جاتی ہے تو ہم مختلف نظریے اور قیاس آرائیاں گھڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
دور سے آگ کے شعلے نظر آتے ہیں تو ہم اس کی مختلف تاویلوں میں لگ جاتے ہیں، ایک دوسرے سے سیاسی بحث میں الجھ جاتے ہیں، حتیٰ کہ آگ کے شعلے ہمارے گھروں کو بھسم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سوات میں جب طالبان کی صورت میں ایک انسان ساختہ وبا سر اٹھانے لگی تو ہم اسے عین اسلام اور شریعت سمجھ کر خاموش ہو گئے یا پھر ان لوگوں کے لیے ہمدردی رکھی۔ کوئی اگر اس ہمدردی سے انکاری ہو تو وہ مام ڈھیرئی میں اس مدرسے میں لوگوں کا رضاکارانہ طور پر کام کرنے پر غور کریں یا پھر سوات کے کئی علاقوں میں خواتین کی طرف سے ان لوگوں کو زیورات اور مردوں کی جانب سے چندوں پر غور کریں۔ ہم گھروں میں بھی اس مخلوق کی باتیں نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ عام خیال یہ تھا کہ ’لوگ‘ سنتے ہیں۔
ہمارے ہی بیچ ان لوگوں کے مخبر کوئی خونی وائرس لے کر گھومتے تھے اور کسی نجی محفل میں گفتگو بھی ان کو پہنچاتے تھے۔ (ایسا بعد میں بھی جاری رہا۔ ان کے بعد کئی لوگ ہمارے بیچ کان کھڑے کرکے پھرنے لگے کہ کہیں کوئی ’غدّار‘ ہو اور اسے رپورٹ کیا جائے۔
اس دوران بڑے بڑے خان خوانین خاموش تھے۔ کوئی حرکت نہیں ہو رہی تھی۔ عام لوگوں میں سازشی نظریات پنپ رہے تھے جن میں خاص نظریہ (جو کسی حد تک اب بھی رائج ہے) یہ تھا کہ چونکہ ’سوات کی حیثیت بہت بڑی ہے اور یہ عسکری و دوسرے لحاظ سے بڑا اہم ہے اس لیے اس پر چین قبضہ کرنا چاہتا تھا اور امریکہ کو یہ منظور نہ تھا اس لیے یہ سب کچھ ہوا۔‘
یہ نظریہ ان لوگوں کی طرف سے زور و شور سے جاری تھا جو اس سے پہلے پورے صورت حال کو شریعت اور اسلام سے جوڑتے تھے۔ بعد میں یہی لوگ ’سوات کو چین اور امریکہ کا میدان جنگ‘ قرار دینے لگے۔ مقتدر حلقوں کو ایسے نظریات سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے اس لیے وہ بھی قومی سطح پر ایسے نظریات کا پرچار ہنوز کرتے آئے ہیں۔
آخر میں ہمارے ان لوگوں کی دس لاکھ سے زیادہ آبادی سوات چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور اُس سال کی گرمیاں صوبے کے دیگر حصّوں میں خیموں میں گزارنے لگی۔
سوات جب پوری طرح اس آفت سے نہیں نکلا تھا کہ جولائی 2010 کو ہولناک سیلاب کی زد میں اگیا۔ ایک بار پھر سازشی نظریات جنم لینے لگے۔ یہ بات عام ہوئی کہ ہمارے پہاڑوں پر امریکہ بہادر نے کوئی سپرے کیا ہے جس کی وجہ سے سیلاب آیا۔ لوگوں کی پیٹھ پر امریکا کی طرف سے خیرات کی ہوئی آٹے کی بوری ہوتی تھی اور منہ پر امریکہ کو گالی۔
ایک اکثریت نے اس آفت کو حسب معمول خدا کا عذاب کہا۔ لوگوں کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا۔ یہی 2005 کے مہلک زلزلے میں بھی ہوا تھا جب لوگ کشمیر اور ملحقہ علاقوں میں کسی مبینہ فحاشی کو اس زلزلے کی وجہ قرار دے رہے تھے۔
ابھی ہم ایک تیسری آفت کرونا وائرس سے نبرد آزما ہیں۔ ایسے میں پھر یہی سازشی نظریات جنم لے رہے ہیں جن کا محور مسلمان ہوتا ہے۔ یعنی یہ کفّار کی مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اگرچہ یہی کفّار چین، اٹلی، سپین، فرانس اور امریکہ اس وبا کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ ایسے بھی کئی لوگ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس مسلمانوں کو کچھ نہیں کر سکتا۔ گویا سعودی عرب اور ایران میں مسلمان نہیں رہتے۔
یہ ساری من گھڑت کہانیاں ہیں۔ جو اصل سازش ایسی آفات کے وقت ہوتی ہے وہ ان ہی سازشی نظریات میں خود ایک سازشی نظریہ بن کر کھو جاتی ہے۔
ایسی آفات میں چند لوگ ہر جگہ فائدے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ خوف میں مبتلا لوگوں کو جلد بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ مختلف قسم کے علاج یا جھاڑ پھونک تجویز کر کے لوگوں کو نفسیاتی اور مالی دونوں طور پر لوٹتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہیں کہ وہ کبوتر کے پوٹے کو اس وائرس کے علاج کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ اسی طرح کئی اور چیزیں بھی مختص کی جاتی ہیں، کوئی دم درود کی بات کر رہا ہے۔
آفات، وبا اور جنگیں سرمایہ بنانے کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔ کئی لوگ ان کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ یہ آفات کبھی ختم نہ ہوں اور ان کا کاروبار چلتا رہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔
جس کرونا وائرس وبا نے اب پاکستان کا رخ کیا ہے یہ کوئی معمولی بلا نہیں۔ ہم یوں ہی نظریات گھڑتے رہیں گے، ہماری حکومت باہر سے امداد کے لیے چیختی رہی گی، ہمارے سول ادارے بشمول تعلیمی ادارے مختلف نظریات گھڑتے رہیں گے اور یوں یہ بلا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اسی لیے بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم صحت کے میدان میں پہلے سے بہت کمزور ہیں۔ اس شعبے کے لیے بجٹ بہت کم رکھا جاتا ہے۔ صحت کی سہولیات تک رسائی میں تفاوت بہت ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ خطرہ چین اور دیگر ملکوں سے ذیادہ ہے۔
ہمارے بس میں صرف وہ احتیاطی تدابیر ہیں جن کو عالمی ادارۂ صحت تجویز کرتا ہے۔ ان پر عمل کرنا ہے۔ ایسے موقعوں پر اپنی حکومت کی ہدایات کو ماننا ہے۔ ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔ مجھے آج بلاول بھٹو نے جیت لیا یہ کہہ کر کہ عمران خان اس ملک کے وزیراعظم اور وزیرِ صحت ہیں لہٰذا وہ اس پر تنقید نہیں کریں گے کیوں کہ ملک ایک حالت جنگ میں ہے۔
بلاول نے عمران خان سے مزید کہا کہ اس آفت کے وقت وہ آگے بڑھیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے ہو جائیں گے۔ بلاول کی یہی سیاسی بلوغت دل موہ لیتی ہے۔ ایسی بلوغت ہمارے عمران خان میں نہیں لیکن یہ ایک جنگی صورت حال ہے اور ہم سب نے مل کر اس سے نمٹنا ہے۔
No comments:
Post a Comment