اس اعلان سے دارالحکومت کے کئی حلقوں میں پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اسلام آباد کے پانچ بڑے طبی مراکز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز اور نان میڈیکل اسٹاف کے نمائندوں نے کل بروز جمعرات اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ مطالبات حکومت کے سامنے پیش کئے تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت انہیں ذاتی تحفظ کی اشیاء فراہم کرے، جنہیں 'پرسنل پروٹیکشن ایکوئپمنٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پی پی ای میں مخصوص لباس، مخصوص چشمے، دستانے، سر کو ڈھانپنے والا ہوڈ، ماسک، گوونز، شوکوور اور فیس شیلڈز شامل ہیں۔
اسلام آباد ملک کا نہ صرف سیاسی دارالخلافہ ہے بلکہ یہ طبی مرکز بھی ہے، جہاں کے پی، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان اور شمالی پنجاب سے بھی بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہونے کی صورت میں دارالحکومت میں ایک بڑا طبی بحران پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ ان ہسپتالوں میں بیس ہزار سے زائد مریض روزانہ آتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ ینگ کنسلٹینٹس ایسویشن پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر اسفندیار خان نے اپنی تنظیم کا موقف ڈی ڈبلیو کو بتاتے ہوئے کہا، ''ہمارے مطالبات ناجائز نہیں ہیں۔ ہم حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمیں ضروری حفاظتی سامان فراہم کرے اور آئسیولیشن وارڈز کی جگہ تبدیل کرے۔ اگر ہمارے پاس پی پی ای نہیں ہو گا، توہم کام کیسے کریں گے؟ اس طرح تو ہر ڈاکٹر اور ہر اسٹاف ممبر رسک پر ہو گا اور اگر کسی ایک ڈاکٹر کو بھی کورونا ہوگیا تو کوئی ڈاکٹر خوف کے مارے مریضوں کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا۔‘‘
انہوں نے آئیسولیشن وارڈ کی جگہ کو بھی ہدف تنقید بنایا، ''یہ وارڈ ایک ایسی جگہ بنایا گیا ہے کہ اگر کسی کو کورونا کا شک ہو یا اسے واقعی کورونا وائرس ہو، تو وہ پورے ہسپتال سے ہوتا ہوا وہاں جائے گا۔ اس وارڈ میں صرف دس بیڈ ہیں اور دو وینٹیلیٹرز ہیں جب کہ کام کرنے والے اسٹاف کے پاس کوئی حفاظتی سامان نہیں ہے، توکوئی ایسی صورت حال میں خود کشی تو نہیں کرے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ افراد کے ہجوم کو ہسپتال میں آنے سے روکا جائے اور آنے والے افراد کی پہلے اسکریننگ ہو۔‘‘
واضح رہے صرف پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں روزانہ تقریبا دس ہزار مریض او پی ڈیز میں آتے ہیں جب کہ ان کے ساتھ ان کے تیمار دار اور رشتہ دار بھی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں لیکن ان تمام افراد کے لیے ہسپتال کے دروازوں پر کوئی اسکریننگ کا انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ تنظیموں کا یہ کہنا ہے کہ آئیسولیشن وارڈز بیچ آبادی میں بنانا ہی نہیں چاہیے۔
پمز کے نان میڈیکل اسٹاف ایسویسی ایشن کے صدر چوہدری ریاض گجر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فیڈرل ہسپتال اسلام آباد ایک کونے میں ہے اور وہ ایک سنسان علاقہ ہے۔ کورونا کے ٹیسٹ بھی وہیں ہو رہے ہیں۔ تو آئیسو لیشن وارڈز وہاں بنانے چاہیے تھے لیکن انہوں نے یہاں بنا دیے اور صورت حال یہ ہے کہ کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ آپ یقین جانیے کہ کل تک ہمارے پاس ماسک بھی نہیں تھے۔ اس کے علاوہ چشمے، دستانے اور سینیٹائزرز تک کا بھی انتظام نہیں ہے۔ اسٹاف ممبرز میں بہت خوف ہے کیونکہ کوئی اپنی جان رسک پر نہیں لینا چاہتا۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ یہ جنگ ہے تو جنگ میں کیا سپاہی ہتھیار کے بغیر لڑتے ہیں۔ حکومت ہمیں پی پی ای دے اور ہمارے دیگر مطالبات مانے، ہم کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں کورونا کے دو کیسز منظر عام پر آ چکے ہیں اور خوف کی وجہ سے لوگ پہلے ہی گھروں سے نہیں نکل رہے۔ تاہم ہلکے سے بھی نزلے یا بخار کی صورت میں وہ ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں۔ کچھ ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ اگر ایسی صورت میں حکومت نے اقدامات نہ کیے تو بہت بڑا طبی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ پولی کلینک سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نہ جانے کیوں حکومت ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کے یہ مطالبات نہیں مان رہی۔ کوئی ڈاکٹر یا ممبر اسٹاف کس طرح پی پی ای کے بغیر کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض کا علاج کر سکتا ہے۔ یہ حکومت کی بے حسی ہے۔ یہ سامان کوئی اتنا مہنگا نہیں ہے۔ خان صاحب نے صرف کچھ دن میں ہی سولہ ارب روپے کرتار پور راہداری کے لئے دیئے تھے، تو اس اہم کام کے لئے پیسے خرچ کیوں نہیں کیے جا سکتے۔‘‘
پمز اور اسلام آباد کے دوسرے ہسپتالوں میں ذرائع کے مطابق حکومت نے ابھی تک ڈاکٹرز یا نان میڈیکل اسٹاف سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ڈی ڈبلیو نے حکومت کے کئی ذمہ داران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہی انہوں نے فون اٹھائے اور نہ پیغامات کے جوابات دیے۔
No comments:
Post a Comment