کشمیری قوم پرست رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی سطح پر مذہبی انتہاپسندی کی سر پرستی بند کی جائے، کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کیا جائے اور جنوبی ایشیا کو جنگ کے شعلوں میں نہ جھونکا جائے۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں معروف کشمیری قوم پرست رہنما مقبول بٹ کی چھتیسویں برسی کے موقع پر قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک خود مختار کشمیری حکومت بنائی جائے اور اس کا اسلام آباد میں ایک سفارت خانہ کھولا جائے تاکہ وہ کشمیرکا مقدمہ خود عالمی سطح پر لڑ سکیں۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف شہروں، بشمول مظفر آباد، باغ، میر پور، کوٹلی، کھوئی رتہ اور راولا کوٹ میں آج کی دن کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں، جہاں مقررین نے خودمختاری کے حق میں پر جوش نعرے لگائے اور پاکستان سے الحاق کی باتیں کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا۔ کئی مظاہرین نے ایسے بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں آویزاں تھیں۔ جموں وکشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جموں کشمیر لبریشن اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت کئی طلبا تنظیموں کے کارکنان نے ایسی شرٹیں پہنی ہوئیں تھیں، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں پرنٹ کی گئی تھیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خود مختاری کے نعرے لگانے والی تنظیموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی ریاست نے ان تنظیموں پر ماضی جیسی سختیاں بند کر دی ہیں۔ مختلف جلسوں میں مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا حل کسی جہاد یا جنگ سے ممکن نہیں بلکہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی کشمیر کو آزادی و خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔
مقبول بٹ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں رہے۔ وہ انیس سو اڑتیس میں کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کشمیر سےکی اور پھر انیس سو اٹھاون میں وہ پاکستان آ گئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوئے۔ مقبول بٹ انیس سو اڑسٹھ میں دوبارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر گئے، جہاں وہ پکڑے گئے لیکن وہ انیس سو انہتر میں جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور واپس پاکستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کا نام دنوں ممالک کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آیا۔
بعدازں کچھ کشمیری نوجوانوں نے بھارت کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا۔ مقبول بٹ کو اس ہائی جیکنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور برسوں کی قید سے رہائی پانے کے بعد وہ انیس سو چھہتر میں ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور گیارہ فروری انیس سو چوراسی کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ کشمیری قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ مسئلہ کشمیر مقبول بٹ کے دیے گئے فارمولے ک تحت ہی حل ہو سکتا ہے۔ مقبول بٹ کے سیاسی شاگرد اور ان کے ساتھ جیل میں ایک سال گزارنے والے ہاشم قریشی، جن کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسان جنگ کی آگ سے بچ سکتے ہیں اگر وہ اس فارمولے پر عمل کریں۔ نئی دہلی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مقبول بٹ نہ پاکستان کی غلامی چاہتے تھے اور نہ ہندوستان کی۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر ایک خودمختار ملک بنے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھائیوں کی طرح رہیں۔ لیکن یہ بات نہ پاکستان کو پسند تھی اور نہ بھارت کو۔ اسی لیے مجھے اور مقبول بٹ کو پاکستان میں بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور بھارت میں پاکستان کا ایجنٹ کہا گیا۔ ہم نے دونوں ممالک میں جیل کاٹی۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر اتنظام کشمیر میں برسوں تک جہادی تنظیمیں کشمیر کا حل مسلح جدوجہد میں بتاتی رہیں لیکن ہاشم قریشی کا خیال ہے کہ مقبول بٹ مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائیوں کے سخت خلاف تھے، ''پاکستان نے جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا، جو صرف پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس نام نہاد جہاد سے کشمیری مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئے۔ مقبول بٹ ایسی کسی بھی مذہبی تحریک کے شدید مخالف تھے۔ اور پاکستان کی جہادی پالیسی کی وجہ سے بھارت میں بھی انتہاپسند قوتیں مذہب کو استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ لہذا دونوں ممالک کو سرکاری سطح پر اس انتہاپسندی کی ترویج کو بند کرنا چاہیے اور کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے، اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو اپنی فوجیں ہمارے علاقوں سے نکالنی چاہیئں۔‘‘
مقبول بٹ کی پارٹی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج مقبول بٹ کے فلسفے کو وہ لوگ بھی مان رہے ہیں، جو ان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے، ''مقبول بٹ سرحد کے دونوں اطراف آج سب سے مقبول اور ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔ ان کا فلسفہ صرف کشمیریوں کے لیے نہیں تھا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے بھی تھا، جن کو حاکم طبقات نے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی سے محروم رکھا ہوا ہے اور سارے پیسے ہتھیار اور فوجوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ہماری خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالیں تاکہ خطے کے ایک ارب سے زیادہ انسان ترقی و خوشحالی دیکھ سکیں اور ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات پا سکیں، جس کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کشمیری قوم پرست اتحاد پیپلز نیشنل الائنس کے رہنما میر افضل کا کہنا ہے کہ مقبول بٹ کا مشن منقسم کشمیر کو متحد کرنا تھا، ''لیکن اس میں رکاوٹ صرف نئی دہلی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اسلام آبادکی طرف سے بھی ہے۔ اسلام آباد نے بھی اسٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے کوئی کشمیریوں سے دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کشمیریوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کرے اور کشمیریوں کو اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑنے دے کیونکہ کشمیری نہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں اور نہ اسلام آباد کے ساتھ۔ ان کی منزل آزادی ہے۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں معروف کشمیری قوم پرست رہنما مقبول بٹ کی چھتیسویں برسی کے موقع پر قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک خود مختار کشمیری حکومت بنائی جائے اور اس کا اسلام آباد میں ایک سفارت خانہ کھولا جائے تاکہ وہ کشمیرکا مقدمہ خود عالمی سطح پر لڑ سکیں۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف شہروں، بشمول مظفر آباد، باغ، میر پور، کوٹلی، کھوئی رتہ اور راولا کوٹ میں آج کی دن کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں، جہاں مقررین نے خودمختاری کے حق میں پر جوش نعرے لگائے اور پاکستان سے الحاق کی باتیں کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا۔ کئی مظاہرین نے ایسے بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں آویزاں تھیں۔ جموں وکشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جموں کشمیر لبریشن اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت کئی طلبا تنظیموں کے کارکنان نے ایسی شرٹیں پہنی ہوئیں تھیں، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں پرنٹ کی گئی تھیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خود مختاری کے نعرے لگانے والی تنظیموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی ریاست نے ان تنظیموں پر ماضی جیسی سختیاں بند کر دی ہیں۔ مختلف جلسوں میں مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا حل کسی جہاد یا جنگ سے ممکن نہیں بلکہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی کشمیر کو آزادی و خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔
مقبول بٹ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں رہے۔ وہ انیس سو اڑتیس میں کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کشمیر سےکی اور پھر انیس سو اٹھاون میں وہ پاکستان آ گئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوئے۔ مقبول بٹ انیس سو اڑسٹھ میں دوبارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر گئے، جہاں وہ پکڑے گئے لیکن وہ انیس سو انہتر میں جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور واپس پاکستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کا نام دنوں ممالک کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آیا۔
بعدازں کچھ کشمیری نوجوانوں نے بھارت کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا۔ مقبول بٹ کو اس ہائی جیکنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور برسوں کی قید سے رہائی پانے کے بعد وہ انیس سو چھہتر میں ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور گیارہ فروری انیس سو چوراسی کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ کشمیری قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ مسئلہ کشمیر مقبول بٹ کے دیے گئے فارمولے ک تحت ہی حل ہو سکتا ہے۔ مقبول بٹ کے سیاسی شاگرد اور ان کے ساتھ جیل میں ایک سال گزارنے والے ہاشم قریشی، جن کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسان جنگ کی آگ سے بچ سکتے ہیں اگر وہ اس فارمولے پر عمل کریں۔ نئی دہلی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مقبول بٹ نہ پاکستان کی غلامی چاہتے تھے اور نہ ہندوستان کی۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر ایک خودمختار ملک بنے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھائیوں کی طرح رہیں۔ لیکن یہ بات نہ پاکستان کو پسند تھی اور نہ بھارت کو۔ اسی لیے مجھے اور مقبول بٹ کو پاکستان میں بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور بھارت میں پاکستان کا ایجنٹ کہا گیا۔ ہم نے دونوں ممالک میں جیل کاٹی۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر اتنظام کشمیر میں برسوں تک جہادی تنظیمیں کشمیر کا حل مسلح جدوجہد میں بتاتی رہیں لیکن ہاشم قریشی کا خیال ہے کہ مقبول بٹ مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائیوں کے سخت خلاف تھے، ''پاکستان نے جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا، جو صرف پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس نام نہاد جہاد سے کشمیری مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئے۔ مقبول بٹ ایسی کسی بھی مذہبی تحریک کے شدید مخالف تھے۔ اور پاکستان کی جہادی پالیسی کی وجہ سے بھارت میں بھی انتہاپسند قوتیں مذہب کو استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ لہذا دونوں ممالک کو سرکاری سطح پر اس انتہاپسندی کی ترویج کو بند کرنا چاہیے اور کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے، اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو اپنی فوجیں ہمارے علاقوں سے نکالنی چاہیئں۔‘‘
مقبول بٹ کی پارٹی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج مقبول بٹ کے فلسفے کو وہ لوگ بھی مان رہے ہیں، جو ان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے، ''مقبول بٹ سرحد کے دونوں اطراف آج سب سے مقبول اور ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔ ان کا فلسفہ صرف کشمیریوں کے لیے نہیں تھا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے بھی تھا، جن کو حاکم طبقات نے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی سے محروم رکھا ہوا ہے اور سارے پیسے ہتھیار اور فوجوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ہماری خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالیں تاکہ خطے کے ایک ارب سے زیادہ انسان ترقی و خوشحالی دیکھ سکیں اور ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات پا سکیں، جس کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کشمیری قوم پرست اتحاد پیپلز نیشنل الائنس کے رہنما میر افضل کا کہنا ہے کہ مقبول بٹ کا مشن منقسم کشمیر کو متحد کرنا تھا، ''لیکن اس میں رکاوٹ صرف نئی دہلی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اسلام آبادکی طرف سے بھی ہے۔ اسلام آباد نے بھی اسٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے کوئی کشمیریوں سے دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کشمیریوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کرے اور کشمیریوں کو اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑنے دے کیونکہ کشمیری نہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں اور نہ اسلام آباد کے ساتھ۔ ان کی منزل آزادی ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment