بچپن میں ہی یہ سبق پڑھا دیا گیا تھا کہ اگر قائداعظم پاکستان کے قیام کے فورا بعد اس جہان فانی سے کوچ نہ کرتے تو پاکستان ایک مختلف ملک ہوتا اور کچھ نہیں تو چھوٹی موٹی سپر پاور ہوتا۔
چولہوں میں گیس پوری آ رہی ہوتی، فوج سرحدوں پر جنگی مشقیں کر رہی ہوتی، عامر اور آصف پاؤنڈ لے کر نو بالیں نہ کرتے، عمران خان کو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر سے ملنے دبئی نہ جانا پڑتا بلکہ پاکستان اتنا پرسکون، خوشحال اور بورنگ سا ملک ہوتا کہ شاید عمران خان کو سیاست میں آنا ہی نہ پڑتا۔
اگر قائداعظم کچھ سال اور زندہ رہ جانے والی داستان سے شاید یہ سب دکھانا مقصود ہے کہ ان کے پاس پاکستان کو چلانے کے لیے کوئی خفیہ نسخہ تھا جسے وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے اور تب سے ہم تکے لگا کر اس ملک کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا۔ اس سال میں ہر ہفتے کم از کم ایک دن ایسا ضرور آیا جو ہمارے دلوں سے آواز نکلی کہ کاش آج عاصمہ ہوتیں تو ہماری جان پر آنے والے اس نئے عذاب کا کچھ کرتیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جو ہسپتالوں کے دورے کرتے تھے اور ڈیم کی چوکیداری کرنے کے دعوے کرتے تھے، اس پر عاصمہ کیا کہتیں۔
جو انتخابی مہم عمران خان کو حکومت میں لے کر آئی اس پر عاصمہ کیا فرماتیں۔ جو ہر دوسرے دن پی ٹی ایم کے کارکنوں، حمایتیوں کو اٹھایا جا رہا ہے ان کی ضمانتیں کروانے پہنچتیں، نوکری سے نکالے جانے والے صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں اور یہ سب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے الیکشن کی دھڑے بندی میں بھی لگی رہتیں۔
ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ وہ کیا کہتیں، کیا کرتیں کیونکہ وہ اس قوم کے ضمیر کا کردار 40 برس تک نبھاتی رہیں۔ ہماری زبانوں پر جو تالے لگائے جا رہے ہیں اس کی چابی عاصمہ جہانگیر اپنے ساتھ نہیں لے گئیں بلکہ ہمارے پاس ہی چھوڑ گئی ہیں۔
جانے والے کو یاد کرنا ضروری ہے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کا ذکر بھی ضرورت ہے لیکن عاصمہ کے پاس ایسا کوئی خفیہ نسخہ نہیں تھا جسے وہ اپنے ساتھ لے گئیں۔ ان کا نسخہ سیدھا تھا، ڈفر کو ڈفر کہو، فوجی کو فوجی اور مولوی کو مولوی۔ مصلحت اندیشی بزدلی کا نام ہے۔ جب مشرف کا مارشل لا آیا تو پاکستان کی بڑی آوازیں ابھی اپنا گلا ہی صاف کر رہی تھیں عاصمہ نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ یہ مارشل لا ہے اور پھر وہی جنرل مشرف یہاں سے بھگوڑا ہو کر دبئی سے ان سے درخواست کرتا تھا کہ وہ اس کا مقدمہ لڑیں۔
عاصمہ جہانگیر کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اکیلی کچھ نہیں کر سکتیں اور اس کےلیے لوگوں سے جڑنا بہت ضروری ہے۔ بلوچستان، کے پی، اندورنِ سندھ جہاں سیاستدان صرف الیکشن کے وقت جاتے تھے اور صحافی کسی قدرتی آفت کے بعد، عاصمہ جہانگیر پشین سے پشاور تک گھومتی تھیں۔
جتنا بولتی تھیں اس سے کہیں زیادہ وہ سنتی تھی۔ اگرچہ ان کے ناقدین انھیں ہمیشہ ایک بھنائی ہوئی عورت کے طور پر پیش کرتے تھے، انھیں ہنسنا بھی آتا تھا اور ہنسانا بھی اور بعض دفعہ غصے کا اظہار بھی پنجابی سٹائل کی جگتوں میں کرتی تھیں۔
ایک دفعہ میں بھولا بھٹکا ایک ٹی وی مباحثے میں پھنس گیا جس میں ایک مفتی صاحب ریپ کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کی دلیل وہی پرانی کے اس سے عورتوں میں بےحیائی پھیلے گی۔ عاصمہ جہانگیر بولیں، مفتی صاحب آپ کو کیوں لگتا ہے کہ پاکستان کی ساری عورتیں آپ کی محبت میں مبتلا ہیں اور آپ کا کردار خراب کرنا چاہتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے مفتی صاحب شرما سے گئے، جتنا کوئی مفتی صاحب شرما سکتے ہیں۔
وہ پاکستان کی صحافت پر آنے والے عذاب کے بارے میں بھی خبردار کرتی رہی تھیں۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں چند سینیئرصحافی اپنے مالکان کا رونا رو رہے تھے۔ انھوں نے توجہ سے بات سنی، پھر پوچھا کہ جو صحافیوں کی یونین ہے اس میں ہو۔
انھوں نے فرمایا ہاں رکن تو ہوں لیکن زیادہ ایکٹو نہیں۔ تو ہو جاؤ ایکٹیو، عاصمہ نے کہا۔ ’کج کم آپ وی کر لیا کرو‘ وہ پنجابی میں بولیں۔
ان کی روح ہم سے مخاطب ہو کر بھی یہی کہہ رہی ہو گی کہ کچھ کام خود بھی کر لیا کرو۔
No comments:
Post a Comment