اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا میں واقع سہالہ فلور اینڈ جنرل ملز کے مالک طارق صادق آج کل کاروبار میں سست روی اور آمدن میں کمی سے پریشان ہیں۔ آمدنی میں کمی کی وجہ سے انہوں نے حال ہی میں اپنی مل کے 45 افراد پر مشتمل عملےمیں کٹوتی کرکے پانچ افراد کو فارغ کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر حالات ایسے ہی رہے تو جلد ہی وہ عملے میں مزید کمی لا سکتے ہیں۔
نہوں نے بجلی کا بل انڈپینڈنٹ اردو کو دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ بھی زیادہ آ رہے ہیں اور اب تو حکومت نے عندیہ دے دیا ہے کہ فلور ملز اور متوسط کاروبار کے لیے دی جانے والی سبسڈی بھی ختم کر دی جائے گی۔ ’بجلی اور گیس کا اضافی بوجھ ان دیگر اخراجات اور بڑھتے ہوئے محصولات کے علاوہ ہے، جو بس بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘
فلور ملز تو پھر بھی متوسط درجے کا کاروبار ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بوجھ کسی حد تک برداشت کر سکتا ہے اور آٹے کے قیمتوں میں کمی بیشی کے لیے لابنگ بھی کرسکتا ہے لیکن گیس اور بجلی کے بلوں سے براہ راست متاثر ہونے والے چھوٹے کاروبار، جیسے ہوٹل کے لیے حالات اور بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مجبوری کے تحت پہلے سے غیر رسمی شعبے میں موجود مزدوروں اور بیروں کی تعداد میں کمی کر کے بیروزگاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ادھر سٹیٹ بینک نے بھی آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گذشتہ روز مہنگائی دگنی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بینک کا کہنا تھا: ’ایک سال میں مہنگائی کی شرح 3.8 سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق گذشتہ تین ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا۔ تاہم زیادہ خطرے کی بات بینک کی جانب سے آئندہ سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کی پیشگوئی ہے۔
وفاقی کابینہ کا ایک اجلاس آج وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں توقع ہے کہ ملک کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کاجائزہ لیا جائے گا۔ توقع ہے کہ اجلاس کوآئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دی جائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد ہوٹلوں کے مالکان سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ گیس کے بل اب 20 یا 25 ہزار کی بجائے 80 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ جی 8 میں واقع ایک ہوٹل کے مالک سہیل گجر کا کہنا تھا کہ اضافی بلوں کا رجحان پانچ ماہ سے چل رہا ہے اور کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ’مزدوروں کو کام نہ ملنا تو دور کی بات، اب ہمارا اپنا روزگار بھی خطرے میں ہے کیونکہ قیمتیں بڑھانے سے سیل پر اثر پڑے گا۔‘
لیکن یہ رجحان اسلام آباد تک محدود نہیں اور نہ صرف چھوٹے کاروبار ان حالات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ غیر واضح پالیسیوں کی وجہ سے ایسی صنعتیں بھی تذبذب کی وجہ سے اعتماد کھو رہی ہیں جن کا انحصار مصنوعات کی برآمدات پر ہے اور جو کچھ عرصہ قبل تک اچھا خاصہ منافع بھی کما رہے تھے۔
پاکستان کی ہوزری سے وابستہ صنعت کی کارکردگی منافع کے لحاظ سے ابھی تک بہتر رہی۔ لیکن موجودہ حالات کی پیش نظر اس صنعت سے وابستہ لوگ بھی بےاطمینانی کا شکار ہیں۔ فیصل آباد میں پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین میاں کاشف ضیا نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں جو عندیہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ بلوں اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ہوزری کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے پاکستانی مصنوعات باہر ممالک کے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے حال ہی میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا لیکن بہتری کے آثار کم ہی ہیں۔ اس قسم کا تذبذب اور غیرواضح صورتحال کا سامنا تقریباً پاکستان کی اکثر صنعتیں کر رہی ہیں جو معاشی نقطہ نظر سے کسی بھی کاروبار کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہوتی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے زہر قاتل۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کاروبار مثال کے طور پر سریے یا سیمنٹ کی صنعت تو پہلے سے مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ایک تو ملک میں تعمیرات سست روی کا شکار ہیں اور دوسری وجہ خطے میں کشیدگی ہے جس سے سیمنٹ کے خام مال کی برآمدات پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس ایند ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ نہ صرف برآمدات بلکہ درآمدات کے متعلق بھی حکومت کی پالیسی تضاد کا شکار نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت ایک طرف تو نئی تعمیرات کی بات کرتے نہیں تھکتی اور دوسری جانب الیکٹرک مشینوں اور تعمیراتی مشینری کی درآمدات کم ہو گئی ہیں۔
انڈپنڈنٹ اردو نے سرکاری موقف جاننے کے لیے چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ ہارون شریف سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور دیگر عوامل کی وجہ سے کاروبار کے اخراجات پر اثر تو پڑے گا لیکن ایسے میں معاوضے کے طور پر کچھ اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ’اس حوالے سے بورڈ نے حکومت کو تجاویز دی ہیں، اب کاروبار میں آسانی کے لیے کیا اقدامات ممکن ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ حکومت ہی کر سکتی ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال مجموعی ملکی پیداوار کی نمو کم ہوکر 3.29 فیصد پر آ چکی ہے۔ اس سال بنیادی شعبوں (جس طرح زراعت، مینوفکچرنگ اور تعمیرات) کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں رہی۔ صرف گندم کی پیداوار قدرے بہتر رہی۔ اس سال روپے کی قدر میں بار بار کمی آئی، فی کس آمدن کم ہوئی، اور ڈالر کے اعتبار سے قومی معیشت سکڑ گئی، سرمایہ کاری میں منفی رجحان سامنے آیا، جبکہ قومی بچت اور برآمدات بھی کم ہوئیں۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم بھی بڑھا ہے۔ تاہم کچھ مثبت رجحان جیسے کہ کرنٹ اکاونٹ اور تجارتی خسارے میں کمی بھی سامنے آئی ہے۔ ایسی حالت میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف یا پھر عالمی بینک اور دوست ممالک سے مدد پر انحصار کرنا پڑا
عام اشارے یہی ہیں کہ اس صورتحال نے مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے خدشات اور ملک میں بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے اعداد و شمار تو موجود نہیں لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ظہور اعوان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں ان کی انجمنوں کی طرف سے زیادہ تعداد میں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ’نجی شعبہ میں تو شاید ہی کوئی صنعت ایسی ہو جس نے کارکن فارغ نہ کئے ہوں، صرف میڈیا کی صنعت میں ہزاروں لوگ بےروزگار ہوئے ہیں۔‘
ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ بےروزگاری17 سے 18 فیصد رہی جس کا مطلب ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ بےروزگاری سے گزر رہے ہیں اور ایسی حالت میں معاشی دباؤ بھی بڑھا ہے۔
20 مئی کو بلاول ہاؤس، اسلام آباد میں ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں سیاسی افطار پارٹی کے میں اکٹھی ہوئیں۔ افطاری کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سمیت شرکا نے عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلانے اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے صدر دارو خان اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں تو بہرحال کاروبار و روزگار پر اثرانداز ہو رہی ہیں، حکومت کی کئی جگہوں پر پالیسی بھی واضح نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کاروبار و تجارت میں آسانی کے لیے فیڈریشن نے حکومت کو تجاویز دی ہیں جن پر ابھی تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اتحاد بنانے کی بات ایک ایسے وقت میں کر رہی ہیں جب بگڑتی معاشی صورتحال کی وجہ سی عوام پریشانی کا شکار ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت کے لیے معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں کراچی میں تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین دلایا کہ معیشت میں آئندہ چند ماہ میں بہتری کے امکانات ہیں۔ انہوں نے بےروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی کہا کہ نوجوانوں کی صلاحیت بڑھانے کی تربیت کا بندوبست کیا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment