پاکستان میں نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والی ’وار آن ٹیرر‘ کے دوران شدت پسندوں سے ہونے والی طویل لڑائی میں کئی ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم فوجیوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں قتال اور تشدد کے شواہد اب جا کر سامنے آنے لگے ہیں۔ بی بی سی نے ایسے ہی کچھ متاثرین تک رسائی حاصل کی ہے۔
یہ 2014 کے اوائل کی بات ہے جب ٹی وی نیوز چینل اس جنگ میں پاکستانی طالبان کے خلاف ایک اہم کامیابی یعنی رات کے اندھیرے میں اس گروپ کے اہم ترین کمانڈرز میں سے ایک کی فضائی کارروائی میں ہلاکت کی خبریں دے رہے تھے۔
یہ عدنان رشید اور ان کے خاندان کے پانچ افراد کی افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں کی جانے والی بمباری میں ہلاکت کی اطلاع تھی۔
عدنان رشید پاکستانی فضائیہ کے ایک سابق ٹیکنیشن تھے اور قدرے معروف تھے۔ انھوں نے ملالہ یوسفزئی کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے 2012 میں ان پر کیے گئے قاتلانہ حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھیں سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے ایک ناکام منصوبے میں ملوث ہونے کے سلسلے میں جیل بھی ہوئی تھی جہاں سے وہ فرار ہو گئے تھے۔
22 جنوری 2014 کو نیوز چینلز نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ہمزونی کے علاقے میں عدنان رشید کی خفیہ پناہ گاہ کو دو رات قبل نشانہ بنایا گیا تھا۔
9/11 کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان جنگجو، القاعدہ کے جہادی اور دیگر شدت پسند سرحد پار کر کے پاکستانی علاقے میں آئے اور اس وقت سے پاکستانی فوج وزیرستان اور دیگر پہاڑی قبائلی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔
صحافیوں سمیت غیر مقامی افراد ان علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے اس لیے سکیورٹی فورسز کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔ جنھوں نے وزیرستان سے ایسی خبریں کی ہیں جن سے فوج کا اچھا تاثر نہیں ملتا، انھیں اکثر اس کی سزا ملی ہے۔
عدنان رشید کی مبینہ پناہ گاہ پر حملے کے تقریباً ایک سال بعد معلوم ہوا کہ پاکستانی جنگی طیاروں نے غلط ہدف کو نشانہ بنا لیا تھا اور عدنان رشید نے خود ایک ویڈیو میں نمودار ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہیں۔
پاکستانی فوج نے اس کارروائی میں ایک اہم شدت پسند کو مارنے کے بجائے دراصل ایک مقامی آدمی کے خاندان کو مار ڈالا تھا اور اس کا گھر تباہ کر دیا تھا۔
حکام نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ بی بی سی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اس شخص سے ملاقات کی جس کا مکان اس حملے کا نشانہ بنا تھا۔
اُس وقت نذیر اللہ کی عمر 20 سال تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’رات کے تقریبآً 11 بجے ہوں گے۔‘
وہ خاتئی کلے نامی گاؤں میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ دو کمروں کے ایک مکان میں موجود تھے۔ عام طور پر جوڑوں کو علیحدہ کمرہ مشکل سے ہی ملتا ہے مگر اس رات ان کے باقی اہلخانہ مکان کے دوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔
’ایسا لگا جیسے میرا مکان دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔ میں اور میری بیوی ہڑبڑا کر اٹھے۔ آتش گیر مادے کی شدید بو آ رہی تھی۔ ہم دونوں دروازے کی جانب بھاگے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے کمرے کی چھت ماسوائے اس حصے کے جہاں ہمارا پلنگ پڑا تھا، مکمل طور پر گر چکی تھی۔‘
دوسرے کمرے کی چھت بھی گر چکی تھی اور صحن میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ نذیر اللہ کو ملبے کے نیچے سے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر انھوں نے ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جنھیں وہ بھڑکتے شعلوں کی روشنی میں دیکھ سکتے تھے۔
اسی اثنا میں پڑوسی ہلاک شدگان اور زخمیوں کو نکالنے کے لیے مدد کرنے آ گئے۔
نذیر اللہ کے گھر والوں میں سے ایک تین سالہ بچی سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ ان کی بھتیجی سمیہ جس کی ماں بھی ہلاک ہوئی تھی، اس وقت ایک سال کی تھی۔ سمیہ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹی مگر وہ بچ گئی تھی۔ ملبے سے خاندان کے چار مزید افراد کو زخمی حالت میں نکالا گیا اور ان سب کو شدید چوٹیں آئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد سے نذیر اللہ کے گھر والے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہو چکے ہیں جہاں زندگی قدرے پرامن ہے۔
قبائلی علاقے میں 20 سال سے جاری لڑائی کے باعث اس خطے کے بہت سارے پاکستانی شہریوں کی طرح انھیں متعدد بار دہشت گردی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔
حکام اور آزادانہ تحقیق کرنے والی تنظیموں کے مطابق سنہ 2002 کے بعد سے دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افراد کو پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے اپنا گھربار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں یا تو سرکاری کیمپوں میں یا پھر پرامن شہروں میں کرائے کے مکانوں میں پناہ لینا پڑی ہے۔
اس جنگ میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس کے کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم محققین، مقامی حکام اور سماجی کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والے عام شہریوں، شدت پسندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی کل تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہے۔
مقامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے متواتر فضائی اور زمینی کارروائیوں میں بہت سارے عام شہری مارے گئے ہیں۔ وہ اپنے دعوؤں کے شواہد کے طور پر ویڈیو اور دستاویزی شواہد جمع کرتے رہے ہیں۔
ان کارکنان کا تعلق ایک نسبتاً نئی اور معروف انسانی حقوق کی مہم پشتون تحفظ موومنٹ سے ہے جو سنہ 2018 کے آغاز میں سامنے آئی اور تب سے قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی ایسی مبینہ خلاف ورزیوں کی تشہیر کر رہی ہے جن کے بارے میں ماضی میں متاثرین بتانے سے ڈرتے تھے۔
تنظیم کے اہم رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ’15 برس کی تکالیف اور تذلیل کے بعد ہم میں اتنی ہمت آئی ہے کہ بات کر سکیں اور آگاہی دے سکیں کہ کیسے فوج نے براہِ راست کارروائی کر کے اور شدت پسندوں کی حمایت کی پالیسی اپنا کر ہمارے آئینی حقوق کو کچلا ہے۔‘
مگر یہ تنظیم شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ رواں برس 26 مئی کو فوج نے شمالی وزیرستان میں مظاہرین کے ہجوم پر فائرنگ کی جس سے ان کے 13 کارکنان ہلاک ہوگئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ تین کارکن اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا۔ پی ٹی ایم اس الزام کی تردید کرتی ہے مگر اس کے دو رہنماؤں کو جو کہ اراکینِ پارلیمان بھی ہیں، گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پی ٹی ایم کی جانب سے جن واقعات کی نشاندہی کی گئی اور جن کے بارے میں بی بی سی نے آزادانہ تحقیقات بھی کیں، جب انھیں پاکستانی فوج کے ایک ترجمان کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے ان پر جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ الزامات ’انتہائی متعصبانہ‘ ہیں۔
ادھر بی بی سی نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے بھی ان پر سوال پوچھا تاہم کوئی جواب نہیں ملا اگرچہ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے عمران خان نے خود قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔
9/11 طالبان کو پاکستان میں کیسے لے آیا؟
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب سنہ 2001 میں نیویارک اور واشنگٹن میں القاعدہ نے حملے کیے۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والے طالبان جیسے بغیر لڑائی کے ہی غائب ہو گئے۔
سنہ 1996 میں کابل فتح کرنے والے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ممالک میں سے ایک پاکستان کے مفاد میں تھا کہ طالبان کو ختم نہ ہونے دیا جائے تاکہ وہ افغانستان میں انڈیا کے اثرورسوخ کو زیادہ بڑھنے نہ دیں۔
تو ادھر جہاں پاکستان امریکی فوجی امداد پر کئی دہائیوں تک انحصار کرتا رہا اور جنرل پرویز مشرف امریکی ’وار آن ٹیرر‘ کا حصہ بھی بن گئے، پاکستان نے پھر بھی طالبان کو نیم خود مختار قبائلی علاقوں خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ گاہیں بنانے دیں۔
مگر افغان طالبان اکیلے ہی سرحد پار نہیں آئے۔ دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے جنگجو بھی قبائلی علاقوں میں آنے لگے اور ان میں کچھ تو پاکستان کی ریاست کے بھی بہت خلاف تھے۔
عالمی عزائم رکھنے والے جہادیوں نے وزیرستان میں بیٹھ کر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس کے بعد امریکہ پاکستان سے کہتا رہا کہ ان کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔
سکیورٹی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے دہشت گردی بڑھنے لگی پاکستان ’عسکریت پسندوں سے لڑائی اور دوسری طرف مستقبل میں سودے بازی کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ان میں سے کچھ کے ساتھ اتحاد‘ کے درمیان پھنس گیا۔
سنہ 2014 میں پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ایک نیا آپریشن شروع کیا جس نے شدت پسند تنظیموں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں پر دباؤ ڈالا اور اسے ملک بھر میں حملوں میں کمی کی وجہ قرار دیا گیا۔
’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں‘
سنہ 2001 میں جب طالبان قبائلی علاقوں میں آئے تو انھیں مقامی لوگوں نے ایک محتاط انداز میں خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی قبائلی لوگ ان سے نالاں ہو گئے کیونکہ انھوں نے اپنے قدامت پسند مذہبی عقائد لوگوں پر نافذ کر کے قبائلی معاشرے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
ابتدائی مراحل میں مقامی نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے لگے اور اسی لیے ان تنظیموں میں قبائلی دشمنیوں کا رنگ آنے لگا جو کہ بعد میں ہونے والی داخلی لڑائیوں سے واضح تھا۔
دوسرے مرحلے میں طالبان نے قبائلی عمائدین کو ختم کرنا شروع کیا جو کہ ان جنگجوؤں کی قبیلوں پر قبضے کرنے کی کوشش میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سنہ 2002 سے لے کر اب تک کم از کم ایک ہزار قبائلی عمائدین کو شدت پسندوں نے قتل کیا ہے اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اس تعداد کو تقریباً 2000 قرار دیتی ہیں۔
جولائی 2007 میں شمالی وزیرستان میں ایسا ہی ایک قتل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے کیسے قبائل کو قابو کیا۔
شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک سے تعلق رکھنے والے وزیر قبیلے کے ایک رکن محمد امین کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے میرے بھائی کو اغوا اور قتل کیا اس وقت بھی علاقے میں میرا قبیلہ مضبوط تھا۔ مگر جب فوج نے انھیں (شدت پسندوں کو) ہمارے لوگوں کے خلاف کارروائی کی آزادی دے دی تو ہماری کمر ٹوٹ گئی۔‘
محمد امین کے بھائی کی لاش شدت پسندوں کے ہاتھوں ان کے اغوا کے اگلے دن ایک ٹرک میں پڑی ہوئی ملی تھی۔ محمد امین اور ان کے قبیلے والوں نے اغوا کاروں کا سراغ لگا لیا اور پھر ان کے ساتھ لڑائی کی۔
اس جھڑپ میں محمد امین کے بیٹے اسد اللہ، ان کے ایک کزن اور چار طالبان جنگجو مارے گئے۔
اس کے بعد رزمک میں طالبان کی پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے قبیلے کی جانب سے عسکری حکام سے کیے گئے مطالبات اس وقت ٹھنڈے پڑ گئے جب رزمک میں ہی موجود طالبان نے جوابی کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔
ایک دہائی بعد بھی محمد امین کو اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ ماسوائے کبھی کبھی آپس میں جھڑپوں کے ’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں۔‘
پی ٹی ایم کے کارکنان نے ایسے بھی متعدد واقعات کے شواہد جمع کیے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز نے مقامی آبادی کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا ہے۔
مثال کے طور پر مئی 2016 میں شمالی وزیرستان میں تیتی مداخیل کے علاقے میں فوجی چوکی پر حملے کے بعد حملہ آور کی تلاش میں فوج نے پورے ایک گاؤں کی آبادی کو اکھٹا کیا۔ واقعے کے ایک عینی شاہد نے، جس کا اپنا بھائی بھی اسی آپریشن میں پکڑا گیا تھا، بی بی سی کو بتایا کہ فوجیوں نے ہر کسی کو مارا پیٹا اور بچوں کے منہ میں کیچڑ ڈال دی۔
ایک ویڈیو پیغام میں ایک شخص نے بتایا کہ اس واقعے میں دو لوگ مار پیٹ سے ہلاک ہوئے جن میں سے ایک اس کی حاملہ والدہ تھیں۔ کم از کم ایک اور شخص ابھی تک لاپتہ ہے۔
اس واقعے میں بچ جانے والوں کی کہانیاں بھی درد ناک ہیں۔ میں رزمک میں ہی سترجان محسود سے ملا۔ ہم ایک سفید خیمے میں بیٹھے تھے جہاں انھوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ ان کے دو بچے بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔
اپریل 2015 کی ایک شام شدت پسندوں نے جنوبی وزیرستان میں شکتوئی کے مقام پر ایک فوجی چوکی پر فائرنگ کی۔ سترجان محسود کا دعویٰ ہے کہ فوج نے قریبی گاؤں سے مشکوک افراد کو پکڑا اور ان میں سے دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا
21 اپریل کو انھوں نے اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھایا اور سترجان محسود کے گاؤں میں تلاشی کا عمل شروع کر دیا۔ انھیں سترجان کے گھر کے عقب میں واقع پہاڑی سے کچھ ہتھیار ملے۔
سترجان محسود کہتے ہیں کہ ’اس وقت میرے گھر میں صرف میرا بھائی ادرجان، اس کی بیوی اور دو بہوئیں موجود تھیں۔‘
فوجیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سترجان کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ فوجی فوراً اندر گھس آئے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور ہاتھ بھی باندھ دیے۔ فوجیوں نے گھر کے دیگر مردوں کا پوچھا اور پھر علاقے سے ادرجان کے چاروں بیٹوں کو لے آئے۔
عینی شاہدین نے بعد میں سترجان کو بتایا کہ ان کے بھتیجوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کے سب سے بڑے بھتیجے رضوار جان کے سر پر لگنے والی چوٹ مہلک ثابت ہوئی۔
ان سب کو ایک پک اپ ٹرک میں ڈالا گیا جو کہ فوجیوں نے پکڑ لیا تھا اور انھیں علاقے میں واقع ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔
اس ٹرک کے ڈرائیور نے سترجان کو بعد میں آ کر بتایا کہ کیونکہ رضوارجان پہلے ہی ’ ادھ موا تھا اور خود سیدھا بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا‘ اسی لیے فوجی انھیں ساتھ نہیں لے کر گئے۔
اس نے سترجان کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے کہا کہ گاڑی روکو، رضوارجان کو سر میں گولی ماری اور اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔‘
اس وقت سترجان دبئی میں ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ کیا ہوا ہے تو وہ واپس آئے۔ انھوں نے ایک فلائٹ لی، بس لی اور پھر 15 گھنٹے پیدل سفر کر کے اپنے علاقے میں پہنچے جہاں 23 اپریل کو رضوارجان کی لاش ملی تھی۔
وہاں مقامی لوگوں نے انھیں بتایا کہ کرفیو کی وجہ وہ رضوارجان کی لاش وادی کے پار ان کے گاؤں نہیں لے جا سکے اور انھیں وہیں پر دفن کر دیا گیا۔
سترجان جب گھر پہچنے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ان کے بھائی اور بھتیجوں کی بیویاں رشتہ داروں کے پاس رہنے چلی گئی تھیں۔
سترجان جانتے تھے کہ خواتین کو مکمل بات معلوم نہیں ہو گی کیونکہ کرفیو کی وجہ سے وہ دوسرے گاؤں تک جا نہیں سکتی تھیں اور علاقے میں کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں تھا۔
جب وہ اپنی بھابھی سے ملے تو انھوں نے وہی بتایا جو انھیں پتا تھا کہ ادرجان کو فوج لے گئی ہے اور گھر کے دیگر مرد لاپتہ ہیں۔
’میں نے سوچا کہ اسے بتاؤں یا نہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ جب ادرجان اور میرے بھتیجے واپس آ جائیں گے تو رضوارجان کی بری خبر دینا آسان ہوجائے گا۔ مجھے پتا تھا کہ فوج کے پاس ان کے خلاف کچھ نہیں ہے اور وہ انھیں جلد چھوڑ دیں گے۔‘
اس لیے سترجان نے اپنی بھابھی کے لیے ایک کہانی گھڑی کہ جب فوج گھر پر آئی تو نوجوان کراچی چلے گئے۔ انھوں نے اپنی بھابھی کو یقین دلایا کہ ان کے شوہر جلد واپس آ جائیں گے۔
26 اپریل 2015 کو انھوں نے اپنے اہلخانہ کو رمک منتقل کر دیا۔ ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے مگر اب تک فوج نے انھیں ان کے بھائی اور تین بھتیجوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
سترجان اکیلے نہیں ہیں۔ مقامی کارکنان کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 سے اب تک فوج نے 8000 لوگوں کو اٹھایا ہے جن کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
ادھر سترجان اپنے گھر کی عورتوں کے اس سوال سے بچتے پھر رہے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں کیوں نہیں جا سکتیں۔
’میں نے انھیں کہا ہے کہ شکتوئی میں ہمارا گھر آرمی نے گرا دیا ہے جو کہ جزوی طور پر سچ ہے۔ مگر اصل وجہ یہ ہے کہ اگر یہ وہاں جائیں گی تو پڑوسی افسوس کے لیے آئیں گے اور انھیں حقیقت پتا چل جائے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ اگر انھیں یہ پتا چل جاتا کہ ان کے بھائی اور بھتیجوں کو جیل ہو گئی ہے یا انھیں مار دیا گیا ہے۔ ان کا اصل درد لاعلمی ہے۔
’میں اپنی بھابھی کو نہیں کہہ سکتا کہ ان کے بیٹے لاپتہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں ان کی دو نوجوان بیویوں کو نہیں کہہ سکتا کہ تم بیوہ ہو گئی ہو۔‘
یہ انفرادی کہانیاں حیران کن تو ہیں مگر انوکھی نہیں۔ پی ٹی ایم کہتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں سینکڑوں لوگ ایسی ہی کہانیاں سناتے ہیں مگر انھیں سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
یہ اس جنگ کے نتائج ہیں جنھیں دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لیے پاکستان نے بہت کوششیں کی ہیں۔ افغان سرحد پر لڑی گئی یہ جنگ معلومات کے لحاظ سے کئی برسوں سے ایک بلیک ہول ہے۔
اور جب گزشتہ سال پی ٹی ایم کھل کر سامنے آئی تو میڈیا کی کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا میں جنھوں نے اس پابندی کو نہیں مانا انھیں دھمکیاں اور معاشی دباؤ کا نشانہ بننا پڑا۔
فوج نے سرِعام پی ٹی ایم کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ اس کے دشمن افغان اور انڈین خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات ہیں۔
پی ٹی ایم کے کچھ کارکنان جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد جمع کر رہے ہیں یا تنظیم کا سوشل میڈیا چلا رہے ہیں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
کئی برسوں سے ظلم سہنے والے ان کارکنان نے جب خاموشی توڑی ہے تو جو سلوک ان سے روا رکھا جا رہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس خفیہ اور طویل جنگ کے متاثرین کو انصاف کے لیے لمبی جدوجہد کرنی پڑے گی۔
No comments:
Post a Comment