زندگی میں کچھ دن اور راتیں ایسی ہوتی ہیں جو سالہا سال گزرنے کے بعد بھی دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں، ایسے کئی ایک دن اور راتیں ہیں جو مرے دل و دماغ پر نقش ہیں – پانچ جولائی 1977ء میں نے پنجاب کے شہری علاقوں میں لوگوں کو جشن مناتے دیکھا اور 4 اپریل 1979ء کو جب میں اسکول جارہا تھا تو میں نے اپنی گلی کے نکڑ پر پہنچ کر دیکھا کہ مجید انور ایڈوکیٹ جوکہ ایم پی اے بھی رہے تھے اور یہ پی پی پی کا کارنامہ تھا کہ ان جیسے لوئر مڈل کلاس کا بندہ ایم پی اے بن گیا تھا، دھاڑیں مار مارکر رورہے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ ” عدالتاں جدوں انصاف دا قتل کرن تے غریباں دے مسیحا نوں پھانسی چاڑھن تے ظلم تے آگے کون کھلوئے گا ” – میں نے اس دن گلیوں، سڑکوں پر سناٹا دیکھا ، لوگ ایک دوسرے سے بات کرنے سے کترارہے تھے ، مرے استاد اس دن بس خاموشی سے کرسی پر بیٹھے رہے اور کوئی بات نہیں کی ، بغیر بولے ہی حاضر، غیر حاضر لڑکے، لڑکیوں کی حاضری لگآدی، اسکول کی پرنسپل جو کہ ایک مسیحی تھیں کو میں نے سسکیاں بھرتے دیکھا
پھر آنسو گیس ، لاٹھی چارج ، فوجی ٹرکوں کے محاصرے ، پولیس چھاپے ،طلباء کے جلوس ، وکلاء کی ہڑتالیں ، چوری چھپے پمفلٹوں کا چھپنا اور پھر گرفتاریوں پر گرفتاریاں ہونا ، لاہور مال روڈ پر پاکستان ویمن ایکشن فورم کے جلوس پر لاٹھیاں اور بیچ سڑک جالب کا پٹنا اور شاہی قلعے سے لیکر کراچی لانڈھی جیل کا قیدیوں سے بھرجانا، دیوار کے بیچ نذیر عباسی کے قتل کا چھپنا اور مسز رانا شوکت کے ساتھ لاہور قلعے کے عقوبت خانے میں اذیت ناک سلوک یہ سب یادداشت کا حصّہ ہیں
لیکن اس دوران مساوات کے کچھ شمارے اور کبھی کبھار لوگوں سے زبانی پتہ چلتا کہ سکھر جیل میں بند بھٹو کی بیٹی کو کبھی سانپ سے ڈرایا جاتا تو کبھی کھلے آسمان والی بیرک میں سخت سردیوں میں بند کردیا جاتا ، اس نہتی لڑکی سے بندوقوں والوں کی ٹانگیں کانپتی رہتی تھیں جبکہ بندوقوں والوں کے ساتھ امریکہ، سعودی عرب اور سارا سرمایہ داری بلاک جم کر کھڑا تھا اور پاکستان میں آمریت اور مذھبی بنیاد پرستی کے سائے میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر مغرب کو کوئی تشویش نہیں تھی اور پاکستان کے عوام کیا چآہتے تھے اس کی بھی کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی
ان دنوں آج کے بہت سے جمہوریت اور سماجی انصاف کے علمبردارجنرل ضیاء الحق، جنرل غلام جیلانی کے چرنوں میں بیٹھے ہوئے تھے اور آج کا ایک داغی باغی بھی جنرل جیلانی کی قربت پر فخر کیا کرتا تھا اور اسے کوڑوں سے ادھیڑی جانے والی سیاسی کارکنوں ، شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں ، طالب علموں ، مزدروں اور کسانوں کی پیٹھیں دکھائی نہیں دیتی تھیں اور نہ ہی ایاز سموں ، ناصر بلوچ ، رزاق جھرنا ، ادریس طوطی کی گردنوں میں پڑے پھندے نظر آئے تھے اور نہ ہی شاہی قلعے کی جیل میں خاموشی سے دفن کئے جانے والے نایاب صدیقی کی کہانی پر کسی نے کان دھرے تھے
ان دنوں تو کسی نے پاکستان کی عدالتوں کے انصاف کے قتل اور ضمیر کی خاموشی پر بھی آواز نہیں اٹھائی تھی اور سب دائیں بازو کے جغادری تندھی سے “امیر التکفیر و الخوارج ” ضیاء الحق کی خدمت میں تھے ، میں نے دائیں بازو کی اصطلاح اس لیے استعمال نہیں کی کہ مجھے پتہ نہیں ہے کہ آے آرڈی میں جے یوآئی ایف اور مسلم لیگ قیوم شامل تھی لیکن جے یوآئی ایف کے موجودہ امیر فضل الرحمان کے بارے میں تو اجمل نیازی کے سامنے اس کے والد مفتی محمود نے یہ کہا تھا کہ ” یہ مرا بیٹا ہوکر چند روپوں کی خاطر مری مخـبری انٹیلی جنس والوں کو کرتاہے
اور مسلم لیگ قیوم گروپ کے پنجاب کے صدر خواجہ خیر الدین جوکہ آے آرڈی پنجاب کے صدر بھی تھے گورنر پنجاب سے ہاٹ لآئن پر رابطے میں تھے اور مارشل لاء حکومت کے مخـبر تھے، ان کے بارے میں یہ رپورٹ قدوائی صاحب نے دی تھی اور یہ دائیں بازو کی اے آرڈی میں اتحادی جماعتیں تھیں جنھوں نے پی پی پی کو پنجاب کی سیاست سے باہر کروانے کے لئے -غیرجماعتی الیکشن کا بائیکاٹ کروایا اور پی پی پی اس فیصلے پر بعد میں ہمیشہ افسوس کرتی رہی
ستائیس دسمبر ٢٠٠٧ کی تاریخ کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ، کیونکہ اس دن پاکستان میں اہل التکفیر والخوارج اور ضیاءالحق کی باقیات پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس کردار کو خاموش کرانے میں کامیاب ہوگئیں جس نے سرد جنگ کے انتہآئی نامواقف حالات اور پھر 90ء سے لیکر مزید دو عشروں تک پاکستان کے اندر انتہا پسندی ، بنیاد پرستی کے پہلو سے جنم لینے والی جہادی تکفیری تاریک گر سیاست کے آگے کھڑے ہوکر مزاحمت کی اور پاکستان میں جہادی تکفیری سیاسی ایمپائر کو مکمل فتح سے روکے رکھا ، جس نے مغرب کے اندر انسانی حقوق اور جمہوری حلقوں کو یہ سمجھانے میں پوری توانائیاں صرف کیں کہ ” جہادی تکفیری دھشت گرد مشین ” ان کی جانب سے جمہوری قوتوں پر آمروں کو ترجیح دینے کا منطقی نتیجہ ہیں اور تیسری دنیا میں جب تک جمہوریت ، انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی قوتوں کی ٹانگیں کھینچیں جاتی رہیں گی دھشت گردی کا عفریت ختم نہیں ہوگا
یہی وجہ ہے جماعت اسلامی سے لیکر سپاہ صحابہ پاکستان تک اور القاعدہ سے لیکر تحریک طالبان پاکستان تک اور افغانستان سے لیکر کشمیر تک جتنے بھی اہل التکفیر و الخوارج تھے سب نے پی پی پی اور بے نظیر بھٹو کو گرانے کی کوشش کی اسامہ بن لادن نے یونہی نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے نوٹوں سے بھرے بریف کیس نہيں دئے تھے
پاکستان کی ضیاءالحق کی باقیات جو ملٹری، عدلیہ اور سول نوکر شاہی میں موجود تھی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے بے ںظیر بھٹو کے خلاف سرگرم رہی اور عسکری، عدالتی ، سیاسی و صحافتی اسٹبلشمنٹمیں تکفیری لابی کی تشکیل اور اسے عفریت بننے سے نہ روک سکی، اسی کا شاخسانہ تھا کہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو اسی شہر میں شہید کیا گیا ، جس شہر میں ان کے والد کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دی گئی تھی اور اس سے پہلے اسی لیاقت باغ میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں کو گولی مار دی گئی تھی
بے نظیر بھٹو اس ملک کی وہ واحد نابغہ لیڈر تھیں جو دھشت گردی اور تکفیری انتہا پسندی کی جڑوں اور ان کے باہمی روابط کو اچھی طرح سے پہچانتی تھیں، ان کی آخری کتاب اس معاملے کے فکری گوشوں پر خوب روشنی ڈالتی ہے، بے نظیر بھٹو نے تکفیری خوارج کے خلاف امت مسلمہ کے سنی شیعہ مظبوط اتحاد کو قائم کرنے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری سے رابطہ کیا اور ان کے علم سے مستفید ہوئیں، اپنی کتاب میں بے نظیر تکفیر اور خارجیت سے نمٹنے کا اصولی راستہ طے کردیا تھا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان واپسی پر انہوں نے سپاہ صحابہ اور طالبان کی دھمکیوں اور خود کش حملوں کے باوجود کراچی سے پشاور تک نہایت ہمت اور دلیری کے ساتھ جلسے اور جلوس کیے اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم تکفیری دہشت گردوں سے پاکستان کے ہر شہر اور قصبے کو آزاد کروائیں گے
لیکن افسوس کہ بے نظیر کی فکر کی روشنی، پی پی پی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں مصلحتوں اور تذبذب پر مبنی پالیسیوں کی تاریکی میں دب کر رہ گئی اور آصف علی زرداری نے سیاست کی وقتی ضرورتوں پر ہر طرح کے آردش پر ترجیح دی اور سب پس پشت ڈال دیا، بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی رئیسانی حکومت اور سندھ میں قائم علی شاہ حکومت نے رمضان مینگل اور اورنگزیب فاروقی جیسے تکفیری دہشت گردوں کو وی آئی پی سکیورٹی اور پروٹوکول دے کر سنی صوفی، شیعہ، مسیحی اور دیگر مظلوم افراد کے قتل عام کی رہ ہموار کی جبکہ سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی اور طالبان کے حامی اور معاون نواز شریف کی مجرمانہ ذہنیت پر خاموشی اختیار کی – اگرچہ زرداری کی اس سیاسی عملیت پسند پالیسی کے حامی پارٹی کے اندر بہت زیادہ ہیں اور پاکستان کی عملی سیاست کے جو خدوخال ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان حامیوں کا استدلال مضبوط بھی لگتا ہے لیکن اس تحمل اور صبر کی قیمت بہت مہنگی پڑی ہے اور پیپلزپارٹی کی اپنی سیاست پر جو کنفیوژن کے سائے ہیں وہ ابتک لہرارہے ہیں
بے ںظیر بھٹو شہید کے دور میں کم از کم پی پی پی کی لبرل ، سیکولر ، پروگریسو سیاست پر تشکیک کے بادل کبھی نہیں لہرائے تھے اور بی بی شہید کی پالٹیکس اس حوالے سے بہت واضح تھی ، یہاں تک کہ انھوں نے برملا اپنے والد کے دور میں ملائيت کے دباؤ میں کئے جانے والے فیصلوں کو بھی غلط قرار دیا تھا اور ان فیصلوں کے حوالے سے پاکستان کی مذھبی اقلیتوں کے اندر جو تحفظات موجود تھے ان کو دور کرنے کی کوشش کی تھی اور انھوں نے بلوچ اور پختونوں سے بھی اپنے تعلقات بہت بہتر کئے تھے، ان دو نسلی لسانی گروہوں کی قیادت کو کم از کم وہ شکایات نہ تھیں جو جناب بھٹو سے تھیں ،مگر آج وہ صورت حال نظر نہیں آتی اور ایک خلا پی پی پی کے اندر نظر آتا ہے اور پی پی پی اپنے امیج کے بحران میں مبتلا ہے اور مستقبل کے وژن کے حوالے سے ابھی تک سیاہ حاشیے اس کے تعاقب میں ہیں ، پی پی پی کی قیادت تو بے نظیر کے سیاسی ورثے کو سنھبالنے کی کوشش میں گرتی پڑتی نظرآرہی ہے جبکہ اس میراث میں اجتھادی ، تخلیقی وفور کے ساتھ چار چاند لگانے کا سوال تو ہنوز جواب طلب ہی ہے
آصف علی زرداری نے پوسٹ بے ںظیر دور میں جس عملیت پسند سختی کے ساتھ کرسی کی محبت میں حکومت چلائی اس کے نتائج پارٹی کی یک جہتی اور اس کی نمو کے میدان میں اچھے نہیں نکلے ہیں اور اقتدار میں کامیاب نظر آنے والی پالیسی اپوزیشن میں بہت ہی ناکام نظر آرہی ہے اور ان کے فیصلوں اور پالیسی پر اٹھنے والی انگلیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بے ںظیر کا بیٹا بلاول ، بیٹیاں آصفہ و بختاور ابھی تک اپنی سوچ اور فکر کا اظہار نہیں کرپارہے ، بس وہ یا تو اپنے سپیچ رائٹرز کے نرغے میں ہیں یا مشیروں اور سیاسی ہدائيت کاروں کی ہدایات کے قیدی ہیں جو پی پی پی کے ہجوم بیکراں کے ساتھ ان کی آزادانہ ملاقاتوں اور وصال میں بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں، کم آز کم یہ رکاوٹ بے نظیر بھٹو کے اپنوں نے کبھی نہیں ڈالی تھیں ، اسٹبلشمنٹ ڈالتی تھی جسے بے ںظیر توڑ کر رکھ دیتی تھیں اور خلق خدا ان کو اپنے درمیان پاتی تھیں ، اس طرح کا جذبہ بلاول بھٹو اور اس کی بہنوں میں دیکھنے کے پی پی پی کے کارکن منتظر ہیں ، وہ ان کو کبھی ناصر باغ تو کبھی بھاٹی گیٹ ، اور کبھی ملتان کے حسین آگاہی چوک تو پشاور کے قصّہ خوانی چوک ، تو کوئٹہ کے میزان چوک تو کبھی کراچی کے ریگل چوک اور لیاری کے چیل چوک میں دیکھنے اور ہاتھوں کو لہرا کر ” اب راج کرے گی ،خلق خدا ” کے نعرے کے ساتھ انا الحق کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تبھی بے نظیر کے قاتلوں کو شکست فاش دی جاسکے گی
بے نظیر کے قاتلوں اور ان کے دشمنوں کو مصلحتوں، سمجھوتوں، اور دائیں بائيں کی اشرافیہ کی مفاہمتوں پر مبنی سیاست سے نہ کل کوئی تکلیف تھی نہ آج ہے اور ان کو ایسے مفاہمتی جرگوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے جس میں ضیاء کی بی ٹیم کا امیر ایک طرف اور دوسری طرف ترنگے سے رنگا کوئی شیدائی بھٹو ملکر ” مفاہمت ،مفاہمت ” کھیلیں اور قاتل ومقتول کے اتحاد سے ” امن ” کے قیام کا ڈھونگ رچایا جانے لگے ، یہ بے ںظیر بھٹو کے خون کی سرخی پر سیاہ رنگ پھینک دینے کے مترادف ہے اور کچھ بھی نہیں ، لیکن قاتلوں اور مقتولوں کے جعلی اتحاد کے داعی یاد رکھ لیں بے ںظیر بھٹو کے خون کے چھینٹے جو پاکستانی سیاست پر پڑے ہیں ان کو دائيں اور بائيں کی جعلی مفاہمتی بارش سے مٹایا نہیں جاسکے گا،
بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے والے کرائے کے ٹٹو بیت الله محسود کے پیچھے انہی دیوبندی اور تکفیری جماعتوں اور ان کی حامی اسٹیبلشمنٹ تھی جو آج بھی طالبان اور سپاہ صحابہ کی عذر خواہی اور پشت پناہی کرتے ہیں، پاکستان کی سیاست کی اس بدنمائی کو ختم کرنے کے لیے ” قاتلوں ” کی شناخت اور ان کے چہرے بے نقاب کرنے ہوں گے – بے ںظیر بھٹو کا قتل کسی کے گھر کا زاتی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی کا کوئی زاتی دکھ ہے کہ وہ آستین کے لہو کی پکار کو یہ کہہ کر خاموش کرانے کی کوشش کرے کہ ” اس کا دکھ زیادہ بے ںظیر بھٹو شہید کے سیاسی ساتھیوں اور پیروکاروں سے کہ اس کا زیادہ قریبی رشتہ تھا ” کیونکہ اس قتل سے کوئی محض اپنی بیوی ، ماں ، بہن سے محروم ہوا ہوگا جبکہ ان کے فکری ، سیاسی ساتھی اور پیروکار تو ایک پورے مکتب سے محروم ہوگئے اور ابتک بے یارومدرگار پھرتے ہیں
No comments:
Post a Comment