پاکستان کی قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران منگل کو حکومتی اور اپوزیشن ارکان گتھم گتھا ہو گئے۔ ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیوں سے حملے کیے اور جھگڑتے ہوئے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ارکان قومی اسمبلی کو ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں حکومتی و اپوزیشن ارکان ایک دوسرے کو چور اور دیگر القابات سے بھی نوازتے رہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد سے رکن اسمبلی اور وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی علی نواز اعوان کی ایک ویڈیو سب سے زیادہ وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ مسلم لیگ (ن) کے شیخ روحیل اصغر کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں وہ گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور دیگر ارکان اسمبلی انہیں روک رہے ہیں۔ ویڈیو کے آخر میں علی نواز اعوان نے بجٹ کی کتاب بھی اپوزیشن ارکان پر دے ماری۔
کئی ارکانِ اسمبلی سیٹیاں اور باجے لے کر ایوان میں پہنچے۔ اس ہنگامے کے دوران سکیورٹی اہل کار بھی اراکین کو روکنے میں ناکام رہے۔
بجٹ اجلاس میں ہنگامہ آرائی اس قدر زیادہ تھی کہ قومی اسمبلی کی سیکیورٹی کے لیے سینیٹ سیکرٹریٹ سے مدد طلب کرنا پڑی۔ ایوان میں ہنگامہ آرائی سے نمٹنے کے لیے اضافی سارجنٹ ایٹ آرمز کی خدمات قومی اسمبلی کے سپرد کر دی گئی ہیں۔
منگل کو ہونے والے اجلاس کے دوران اپوزیشن اور حکومتی ارکان نے ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں پھینکیں۔ اس دوران کاپیوں کے بنڈل لگنے سے ایک سارجنٹ اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن ملیکہ بخاری زخمی ہوگئیں۔
اس بارے میں سوشل میڈیا پر حکومت کے حامی اور مخالفین کے درمیان بھی جنگ دیکھنے میں آئی اور دونوں طرف کے افراد ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر رکنِ اسمبلی علی گوہر بلوچ کی ایک ویڈیو شیئر کی اور دعویٰ کیا کہ لڑائی کا آغاز علی گوہر کے نعروں سے شروع ہوا تھا اور (ن) لیگ کے ایم این ایز نے تمام پارلیمانی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گالیاں دیں، جس پر پی ٹی آئی کے نوجوان ارکان جذباتی ہو گئے اور
پھر بجٹ کی کتابیں پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس تمام ہنگامہ آرائی سے حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان لاتعلق رہے۔
وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سے ایک ویڈیو میں وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری بھی نظر آرہی ہیں جو موبائل کیمرے میں بار بار چور چور کی آوازیں بلند کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اس ہنگامہ آرائی پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “آج پارلیمنٹ میں حکومتی ارکان کی جانب سے جو ہلڑ بازی کی گئی، جس طرح کی زبان استعمال کی گئی وہ ناصرف پی ٹی آئی جیسے گروہ کا وطیرہ ہے بلکہ ذہنی طور پر ان کی شکست کا اعتراف ہے۔”
انہوں نے عربی کی ایک کہاوت بھی نقل کی جس میں کہا گیا کہ انسان جب مایوس ہو جائے تو زبان دراز ہو جاتی ہے۔
وزیرِ مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ شاہد خاقان عباسی کے کہنے پر ن لیگ اراکین اسمبلی گالم گلوچ پر اتر آئے اس کے بعد لڑائی شروع کروائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رکن فہیم خان کو مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی جانب سے زخمی کیا گیا۔ ملیکہ بخاری کی آنکھ پر بجٹ بک ماری گئی جس سے ان کی آنکھ زخمی ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ ن لیگ کو خواتین اراکین اسمبلی کی عزت اور آبرو کا کوئی احساس نہیں۔
ہنگامہ آرائی شروع کب ہوئی؟
یہ ہنگامہ آرائی پیر کو بجٹ اجلاس کے دوران ہی شروع ہو گئی تھی لیکن منگل کے روز اس میں اُس وقت زیادہ شدت دیکھی گئی جب قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف تقریر کر رہے تھے۔
حکومتی ارکان نے ڈیسک بجا کر اور نعرے بازی کر کے انہیں تقریر سے روکنا شروع کیا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نے ان کا گھیراؤ کر کے ان کا دفاع کیا۔ لیکن ہنگامہ آرائی میں اچانک بجٹ کی کاپیوں کا ایک بنڈل ان کے سامنے موجود ڈائس پر آگرا، شہباز شریف اس بنڈل سے محفوظ رہے۔
اپوزیشن کے خلاف وفاقی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری بھی نعرے بازی کرنے والوں میں شریک تھے۔
اسپیکر اسد قیصر نے تمام اراکین کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شور شرابا نہ کرنے کی سخت تلقین کی، لیکن وہ بھی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے، جس کے بعد انہیں اجلاس بیس منٹ کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی تقریر سے حکومتی بنچوں میں آگ لگ گئی ہے۔ انہوں نے بجٹ دستاویزات جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اہداف بارہ سے پندرہ فی صد مہنگائی کی بنیاد پر بنائے گئے، وزیر خزانہ بتا دیں کیا بجٹ سے مہنگائی کم ہوگی؟
شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن اراکین کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ پر تنقيد حزب اختلاف کا حق ہے، لیکن مہذب طريقہ اختیار کیا جائے۔ اپنی بات کريں اور حکومتی موقف نہ سنيں، يہ مناسب نہيں۔ اگر اپوزيشن ہماری نہيں سنے گی تو ہم بھی ان کی نہيں سنيں گے۔
فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم اس طرح کے رویے کی بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر اپوزیشن کو ایوان میں بات کرنی ہے تو اسے حکومت کی بات بھی سننی پڑے گی، وہ پہلے وزیر اعظم اور وزرا کا نکتہ سنیں پھر اپنی بات کریں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ جو کرے گی وہی جمہوری اور پارلیمانی رویہ ہے اور حکومت جو کرے گی وہ غیر جمہوری ہے، لیکن اگر اب آپ ہمیں بات کرنے دیں گے تو خود بھی بات کر سکیں گے۔
کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل نہ ہو سکا
منگل کو ہونے والے اجلاس سے قبل اسپیکر کی طرف سے قائم کی گئی اخلاقیات کمیٹی نے اجلاس کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ بھی تجویز کیا تھا، لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا۔
اس کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے کوئی ممبر اخلاق باختہ، ناشائستہ اور غیر پارلیمانی زبان و بیان اور اقدام سے مکمل پرہیز کرے گا، خلاف ورزی کی صورت میں اسپیکر ایسے ممبر کے خلاف اقدام کریں جو سب کو قبول ہوگا۔
کوڈ آف کنڈکٹ میں کہا گیا ہے کہ ہاؤس کے اندر ممبرز کی پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ ہی پلے کارڈ اٹھا کر مخالف جماعت کے ارکان کی نشستوں کی جانب جانے کی اجازت ہوگی۔
کوڈ آف کنڈکٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسپیکر کے ڈائس پر کھڑے ہو کر نعرے بازی، گفتگو اور احتجاج کی اجازت نہیں ہو گی۔ تمام ارکان اپنی نشستوں پر احتجاج کریں گے اور تمام ممبران صرف اسپیکر کو مخاطب کرکے بولیں گے۔
کیا پارلیمان میں اپنائے گئے رویے کی کوئی توجیح ہے؟
پارلیمان میں موجود ارکان کسی بھی ملک کی آبادی کے چنے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں عوام اپنی نمائندگی اور قانون سازی کے لیے ایوان میں بھیجتے ہیں۔
دنیا بھر کی پارلیمان میں احتجاج کیا جاتا ہے جس کے دوران بعض اوقات ہنگامہ آرائی اور لڑائی جھگڑے تک کی نوبت جا پہنچتی ہے، لیکن نازیبا زبان استعمال کرنے کی ہمیشہ ہر طرف سے مذمت ہی کی جاتی ہے۔
منگل کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں نازیبا زبان کے استعمال سے متعلق استاد اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں زبان کا استعمال بھی معاشرتی رویوں کا عکاس ہوتا ہے اور زبان کا استعمال تعلیم کے ذریعے ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ پارلیمان میں آتے ہیں وہ عموماً پارلیمان کے آداب سے واقف ہی نہیں، ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو خود کو اتھارٹی سمجھتے ہیں، دوسرے کو بے عزت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کے بقول، “ہمارے ہاں جمہوری روایات کے لیے جمہوریت کا تسلسل ایسا رہا ہی نہیں، بار بار فوجی آمریت آتی رہی اور کسی کی بھی پارلیمانی تربیت نہ ہوسکی۔”
معاشرے کے مجموعی رویے کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا تھا کہ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ریاست کے ادارے عوامی مسائل کے حل میں ناکام ہو چکے ہیں، مختلف مافیاز طاقتور ہو چکی ہیں اور وہ ہی تمام معاملات کو چلا رہی ہیں۔
https://www.humsub.com.pk/399753/voa-2166/
No comments:
Post a Comment