Friday, October 23, 2020

بلوچستان کا کیا ہوگا؟

تحریر: گہرام اسلم بلوچ

اسوقت پاکستان میں جمہوریت، سول سُپر میسی، ووٹ کو عزت دو اور سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف تقریبا ملک کے تمام چھوٹی بڑی سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کا ایک اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی، ڈی، ایم) کے نام سے ایک پیج پر متحد نظرآرہے ہیں۔ اس ملک گیر پارلیمان کی بالادستی کی تحریک کو ( پی ڈی ایم) کے نام سے ملک کے دائیں بازو کے سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمان صاحب کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مگر انکے نتائج بتدریج توقعات سے زیادہ ہیں، اسکی قیام کی مختصر تاریخ سے اب تک ملک میں ( پاور شو) کے دوبڑے کامیاب جلسے کا انعقاد کرنے کی سہرا بھی ( پی ڈی ایم) میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے جنہوں نے ایک مشترکہ بیانیہ لیکر اس عوامی اور سیاسی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔

اس سیاسی الائنس میں  بلوچستان کے دو بڑے قوم پرست جماعتیں بھی پارلیمان اور سول سپرمیسی کے بیانیے کے لیے شریک جدوجہد ہیں۔ ان دونوں بڑے عوامی اجتحاعات سے، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل سیاسی جماعتوں نے بلوچستان کے مسائل کو انتہائی واضع طور پر رکھا اور امید ہے کہ مزید اس الائنس کے ذریعے مزید بلوچستان کے کیس کو ملکی سطح پر اُجاگر کریں گے۔ اسوقت بلوچستان کے (برننگ ایشو) ہوں یا دیرینہ مسائل تمام مسائل پہ توجہ دینے کی ضروت ہے۔ اسوقت بلوچستان کا اہم ترین مسئلہ لاپتہ افراد، جزائر پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاق کے تصرف میں لانا، اٹھارویں ترمیم کو (رول بیک) کرانے کی شو شا، سائل وسائل پر بلوچستان کو نظرانداز کرکہ انکے حقوق نہ دینا، بیروزگاری اور  سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے علاوہ دیگر صحت اور تعلیمی مسائل بھی سرفہرست ہیں جو کہ ان پہ توجہ دینا ناگزیر ہے۔

اسوقت اپوزیشن اپنے بیانہ پہ انتہائی مستقل مزاجی کیساتھ کھڑی ہے، مگر دیکھنا ہو گا کہ یہ کب تک اپنے موقف پہ ڈٹے رہیں گے، اب تک تو ایسا نظر نہیں آرہا، کہ اپوزیشن ڈیل کے موڈ میں ہے، کیونکہ انکی تحریک کو بھرپور عوامی پذیرائی ملی ہے، اگر اس بار یہ ( بیک فُٹ) پہ چلے گئے تو پھر عوام  اور سول سوسائیٹی کی اعتبار ان پہ ہمیشہ کے لیے اُٹھ جائیگا۔ مگر یہاں سول یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پہلے مرحلے میں ( پی ڈی ایم ) کو کچھ یقین دہانی کرا کر کامیابی ملی تو کیا وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد اور دیگر سیاسی مسائل کے حوالے سے (  پی ڈی ایم) میں شامل بلوچستان کے قوم پرست جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا بیچ میں چھوڑ کر الودع کریں گے؟

اگر یہ تحریک محض بڑی جماعتوں کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ اپنے معاملات کو طے کرنے کی ہے تو  اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیونکہ ماضی میں بھی ( اے پی ڈی ایم) کے نام سے ( ن لیگ) کی سربرائی میں 2008 کے الیکشن میں بلوچستان کے قومرست جماعتوں کو تو الیکشن سے بائیکاٹ کرایا مگر پھر وہ خود منحرف ہوکر میاں شہباز شریف وزیراعلٰی  پنجاب منتخب ہوئے۔ ماضی میں ایسے واقعات کا مطالعہ کر کہ اب بھی ہم شکوک و شبہات میں پڑ جاتے ہیں کہ اللہ نہ کرے اب کے بار پھر ایسا ہو۔

اس وقت اس تحریک سے عام فہم اور تجربہ کار سیاسی و دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اس میں کچھ نیا پن یہ ہے کہ  پنجاب  مقتتدرہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا ہے تو ضرور کچھ ہوگا، مگر یہ رائے بھی گردش کر رہی ہے کہ  اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ پنجاب کے حکمران آخری حد تک اسٹینڈ کریں گے، خیال یہ کیا جارہا ہے کہ بڑی جماعتیں اپنے معاملات  سیٹ کر کہ  اس تحریک کو پھر خود بے اثر کریں گے۔ اگر  ایسا ہوا  تو بلوچستان کا کیا ہوگا؟

https://samachar.pk/

No comments: