حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے دارلحکومت میں تین ہزار ہندو شہریوں کی سہولت کے لیے پہلے مندر کمپلیکس کی تعمیر روکنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ حکومت نے اس منصوبے کے لیے دس کروڑ روپے کی اعانت کا بھی اعلان کیا۔
مگر اسلام آباد کے انتظامی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے اس مندر کے لیے مختص اراضی کے گرد احتیاطی چار دیواری کی تعمیر یہ کہہ کر رکوا دی کہ تعمیراتی نقشے کی منظوری تک کسی بھی اراضی پر کوئی تعمیراتی سرگرمی قانوناً نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہندو پنچائیت نے اجازت ملنے تک چار دیواری کی تعمیر روک دی ہے۔
تعمیراتی قوانین کے نفاز میں سی ڈی اے کی سنجیدگی قابلِ قدر ہے۔ سنہ 2015 میں وزارتِ داخلہ کے سروے سے معلوم ہوا کہ سی ڈی اے کی حدود میں 492 مساجد آباد ہیں مگر ان میں سے 233 یعنی 47 فیصد مساجد قبضے کی زمین پر بغیر کسی قانونی منظوری کے قائم ہیں اور کئی مساجد کے ساتھ بلا اجازت مدارس بھی متصل ہیں۔
کیا سی ڈی اے میں اتنا دم ہے کہ وہ ان مساجد و مدارس کی ایک اینٹ بھی ہلا سکے؟کیا کوئی عالمِ حق ببانگِ دہل آج کل کے ماحول میں کہہ سکتا ہے کہ قبضے کی زمین پر نماز نہیں ہو سکتی۔
مسجدِ نبوی کی زمین کے مالک دو یتیم بچوں نے اسے تحفتاً پیش بھی کر دیا مگر پیغمبر اسلام نے اس قطعہِ اراضی کو قیمتاً حاصل کیا تاکہ آنے والے ادوار کے لیے مثال قائم ہو۔
اسلام آباد میں مکتبہ دیوبند کے علما کرام نے گذشتہ ہفتے پریس کانفرنس کی کہ اسلامی مملکت میں بت خانے کی تعمیرِ غیر شرعی ہے اور صرف پرانے مندروں کی بحالی و توسیع ہو سکتی ہے۔
البتہ ایک عالم مفتی راغب نعیمی نے کہا کہ مندر کی تعمیر میں سرکاری پیسہ استعمال نہیں ہو سکتا تاہم ہندو برادری اپنے سرمائے سے قطعہِ اراضی خرید کے مندر تعمیر کر سکتی ہے۔ اب یہ معاملہ حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دیا ہے۔
اس دوران پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی بھی بحث میں کود گئے اور انھوں نے دو ہاتھ مزید آگے بڑھ کے کہا کہ اسلامی ملک کے دارالحکومت میں مندر کی تعمیر ریاستِ مدینہ کی روح کے خلاف ہے۔ صرف پرانے مندر بحال ہو سکتے ہیں۔
اس پوری بحث میں کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ آئین کی روشنی میں ہی دیا گیا ہو گا۔
آئین میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق اور مذہبی عبادت کے حق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین میں کہیں نہیں کہا گیا کہ برابر کے شہری ہونے کے باوجود وہ کوئی نئی عبادت گاہ تعمیر نہیں کر سکتے یا ٹیکس دینے کے باوجود ریاست سے عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت کے لیے گرانٹ نہیں لے سکتے۔
جس طرح پاکستان میں مسلمان شہریوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے اعتبار سے نئی مساجد اور قبرستانوں کی تعمیر ہو رہی ہے اسی طرح غیر مسلموں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے مگر ان کی عبادت گاہوں یا آخری رسومات کی سہولتوں میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مثلاً آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے سروے کے مطابق تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی جبکہ 428 مندر آباد تھے۔ 73 برس کے دوران 20 کو چھوڑ کے باقی تمام مندر گوداموں، گھروں، دفاتر، تعلیم گاہوں وغیرہ میں غائب ہو گئے۔
ملک میں اس وقت ہندو آبادی 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس 40 لاکھ کے لیے سندھ میں 11، پنجاب میں چار، بلوچستان میں تین اور خیبر پختونخوا میں دو مندر فعال ہیں۔ ہندو کمیونٹی سینٹرز عنقا ہیں جبکہ شمشان گھاٹ کی سہولتیں سینکڑوں میل کے فاصلے پر ہیں۔
حکومت نے چار ماہ پہلے اعلان کیا کہ لگ بھگ چار سو مندروں کو دوبارہ بحال کر کے ہندو برادری کے حوالے کیا جائے گا مگر رفتار کا عالم یہ ہے کہ 73 برس میں صرف چار مندر بحال ہو سکے۔
چکوال میں کٹاس راج (یہ عبادت سے زیادہ نمائشی مقاصد کے لیے ہے)۔ سیالکوٹ، پشاور اور ژوب میں ایک ایک مندر بحال ہو پایا۔ یہی رفتار رہی تو باقی 396 مندر زیادہ سے زیادہ اگلے ایک ہزار برس میں بحال ہو جائیں گے۔
سعودی عرب اور ایران دو مسلمان ممالک ہیں جہاں قانوناً کوئی نئی غیر مسلم عبادت گاہ تعمیر نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ کسی اور ملک میں قانوناً اس کی مناہی نہیں البتہ شرعی تشریحات الگ الگ ہیں۔
جیسے خلیجی ممالک میں عبادت گاہوں کی تعمیر کو آبادی کے تناسب اور مذہبی سہولت سے جوڑ کے دیکھنے کا چلن ہے۔ چنانچہ اومان میں سوا سو سال پرانا شیو مندر مسقط میں قائم ہے۔ بحرین میں ہندو کارکنوں کے لیے آٹھ مندر ہیں جنھیں سرکاری و بین الاقوامی سرپرستی حاصل ہے۔
دبئی میں سنہ 1958 میں ایک کمرشل عمارت کی چھت پر مندر قائم تھا۔ ابھی دو برس پہلے متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ابوظہبی میں 27 ایکڑ رقبہ سوامی نارائن مندر کی تعمیر کے لیے عطیہ کیا۔
اس وقت امارات میں تیس لاکھ کے لگ بھگ ہندو کارکن ہیں اور نیا مندر کمپلیکس ہندو آبادی کے تناسب سے بنایا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ اس سال کے اختتام تک یہ مندر عبادت و سماجی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔
پہلے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں نویں صدی کا پرمبنان مندر جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے بڑا مندر اور عالمی وراثت کی یونیسکو فہرست کا حصہ ہے۔
سرکار نے تمام قدیم مندروں کو محفوظ اور پرکشش بنانے کے لیے خطیر رقم مختص کی چنانچہ مذہبی سیاحت میں پچھلے ایک عشرے میں دوگنا اضافہ ہوا۔
دوسرے بڑے مسلمان ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت کے ڈھاکیش واری مندر کو مسجدِ بیت المکرم کی طرح قومی عبادت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔ وہاں ہر صبح کا آغاز قومی پرچم لہرانے اور ترانے سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 1988 میں اسلام ریاست کا قومی مذہب قرار دیا گیا۔
جبکہ تیسرے بڑے مسلمان ملک پاکستان میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ ہندو شہریوں کے لیے نیا مندر جائز ہے کہ ناجائز۔
یقین نہیں آتا کہ یہ وہی ملک ہے جہاں 60 کے عشرے تک جو 22 سرکاری چھٹیاں ہوتی تھیں ان میں 25 تا 31 دسمبر کرسمس کی ایک ہفتے کی چھٹیوں کے علاوہ ایسٹر، بیساکھی، دسہرے، دیوالی اور ہولی کو بھی قومی تعطیل کا درجہ حاصل تھا۔
ریاست اس دور میں بھی تھی، حکمران اس دور میں بھی تھے اور علما کرام تب بھی تھے۔ پھر شاید یوں ہوا کہ ذہنی قد چھوٹے ہونے لگے اور سائے لمبے۔۔۔ ارے یاد آیا، آج پانچ جولائی بھی تو ہے۔
No comments:
Post a Comment