Saturday, July 4, 2020

خیبر پختونخوا حکومت طلبہ کے مستقبل سے کھیل رہی ہے


اس وقت صوبے کی 21 سرکاری جامعات میں سے سات مستقل وائس چانسلر کے بغیر چل رہی ہیں اور تعلیمی اداروں کو انتظامی، مالی اور تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔


یونیسکو کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جس کے پانچ اور 16 سال کے درمیان تقریباً دو کروڑ 28 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ اگرچہ ملک میں ملینیئم اہداف کے حصول اور مفت اور لازمی تعلیم کے لیے پاکستان کی کوششیں جاری ہے اور حکومت نے امسال کے آخر تک شرح خواندگی 70 فیصد تک پہنچانے کا عزم کیا ہوا ہے، مگر
حکومت کے ناکافی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت پرائمری، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سمیت کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔ آج ہم صرف خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کی راہ میں حائل مشکلات اور نوجوانوں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنیٰ یونیورسٹیوں کو انتظامی، مالی اور تعلیمی مسائل کا سامنا ہے۔ اس بات میں دو آرا نہیں کہ ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا، سربراہ کے بغیر اس کا چلنا محال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی آئین و قانون میں ہر ادارے اور محکمے کے سربراہ کو تعینات کرنے اور تبدیل کرنے کی واضح ہدایات موجود ہیں اور ہر محکمے یا ادارے کے سربراہ کو لگانے کے مجاز حکام اس بات
کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ آئین و قانون میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوں۔ آرمی چیف، چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین نیب، چیف جسٹس آف پاکستان سمیت تمام آئینی وقانونی عہدے اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ اس پر بروقت تعیناتی کی جائے، تاکہ اس ادارے میں کوئی آئینی قانونی انتظامی یا مالی خلا پیدا نہ ہو۔ بدقسمتی سے اس وقت خیبر پختونخوا کی 21 سرکاری جامعات میں سے سات مستقل وائس چانسلر کے بغیر چل رہی ہیں۔ ان میں پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، فاٹا یونیورسٹی درہ آدم خیل، وومن یونیورسٹی مردان، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، یونیورسٹی آف صوابی اور یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور شامل ہیں۔ ان میں سے بعض جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل اعلیٰ حکام کی منظوری سمیت مکمل بھی ہو چکا ہے مگر باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہ ہونے کی وجہ سے عہدے خالی اور انتظامی خلا ان اداروں کا ستیا ناس کر رہے ہیں۔ فاٹا یونیورسٹی کا وائس چانسلر اپنے دو ادوار مکمل کر کے مارچ 2020 میں ریٹائرڈ ہو چکا ہے۔ بدقسمتی سے اس نوزائدہ یونیورسٹی میں نہ کوئی مستقل رجسٹرار تعینات ہے نہ پرو وائس چانسلر، نہ اس لیول
کے کسی دوسرے عہدے دار کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عارضی طور پر سہی، ادارے کے مالی اور انتظامی معاملات کو چلا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے اکاؤنٹ میں پیسوں کی موجودگی کے باوجود گذشتہ تین مہینے سے مالی اور چوکیدار سے لے کر پروفیسر صاحبان تک اپنی ماہانہ تنخواہوں سے محروم ہیں اور وہ پریس کلب اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی حکومت کی تعلیمی معاملات میں عدم دلچسپی کا یہ حال ہے کہ وومن یونیورسٹی پشاورکی وائس چانسلر ڈاکٹر رضیہ سلطانہ دوسرے دورِ ملازمت کے لیے نام کی منظوری کے
باوجود گذشتہ دو سال سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن کی منتظر اور عبوری چارج کے ساتھ یونیورسٹی کی معاملات چلا رہی ہیں، جس کو صوبائی حکومت کی سطح پر خراب حکمرانی اور بد قسمتی کے سوا کوئی نام
نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک پشاور سمیت زیادہ تر یونیورسٹیوں میں مالی بحران اور مشکلات کا سوال ہے، اس پر بھی اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کی مثال صادق آتی ہے۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے انتظامی اختیارات تو صوبوں کو تفویض کیے گئے ہیں مگر ان کے لیے بجٹ مختص کرنا اور مالی لحاظ سے چلانا اب بھی وفاق کی ذمہ داری ہے۔

وفاق کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن سفید ہاتھی کی مانند نہ صرف موجود ہے بلکہ وفاق کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا زیادہ تر حصہ بھی یہی ادارہ مختلف پراجیکٹ کے نام سے ڈکار جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں نے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنائے ہیں اور تمام پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر یونیورسٹیوں کے مالی اور انتظامی اختیارات اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
یعنیٰ 'دو ملاؤں میں مرغی حرام' کے مصداق وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات اور خرچ و آمدن کے معاملات میں اختلاف کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان دونوں انتظامی اور مالی مسائل کی وجہ سے مشکلات کے شکار ان یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ و طالبات ہیں جو کرونا وبا کے باعث گھروں میں بیٹھ کر آن لائن کلاسوں کے نام پر خوار ہو رہے ہیں۔
تمام نئے ضم شدہ اضلاع میں انٹرنیٹ کی مناسب سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے ہزاروں طلبہ و طالبات آن لائن کلاسوں سے محروم اور احتجاج پر مجبور ہیں جبکہ شہروں میں رہائش پذیر طلبہ و طالبات آن لائن کلاسوں میں اساتذہ کی عدم دلچسپی اور ناتجربہ کاری کا رونا رو رہے ہیں۔
اس لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے گزارش ہے کہ مٹی پاؤ والی پالیسی چھوڑ دے۔ تمام یونیورسٹیز میں مستقل وائس چانسلروں کی تعیناتی ناگزیر ہے بلکہ ان کے مالی اور تعلیمی مسائل کا حل بھی وقت کا تقاضا ہے، جس سے پہلوتہی قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

No comments: