Wednesday, April 15, 2020

#Pakistan #PPP - Sherry Rehman calls for Senate to steer Pakistan from Crisis

After the House Business Advisory Committee of the Senate, the PPP Parliamentary Leader, Sherry Rehman urged going forward with making the rules and arrangements for an online session as well as the regular session of standing committees. She said that Parliament’s urgent role of scrutinizing government, authorizing spending, making laws, and providing leadership during difficult times must be upheld. She said, “while Pakistan faces a risk of increased cases and casualties, the federal government’s decision-making, effectiveness of lockdowns as well as its health and economic policies remain questionable. The need for a consensus on effectively managing this state of emergency is greater than ever. The Senate of Pakistan, while ensuring no province is left behind in the decision-making process, needs to advocate for unity and cohesion to cope with this pandemic in the best interest for the public of Pakistan”.
“The Senate has to urgently address five big issues related to the Corona crisis. The federal government must look towards coordinating and aligning policies across the board. A coherent strategy among all provinces is the need of the hour to tackle and contain the growing COVID-19 challenge. A provincial government or a city alone cannot stamp out this deadly contagion. Chairman PPP, Bilawal Bhutto Zardari, has also called for a unified strategy between the center and all provinces to combat the rising threat of the pandemic. This is the time for national unity where all provinces must be on the same page. As of now, the entire federal response is based on federal point-scoring politics vs Sindh”, she added. “We need to fight Corona, not each other”
“Secondly, health infrastructure deficits must be discussed in what we see is a daily evolving situation. Parliamentary committees must not function without data. Even civil society has questions about our capacity to protect the frontline. Discord on numbers, management over testing, provision of protective gear to doctors and health workers, all must be our priority.” the Senator added.
“Thirdly, we must face down the challenges our most vulnerable communities face, without exposing them to the life-threatening virus. Like most countries, Pakistan is facing key issues of charting a consensus-based policy which creates a workable balance between protecting lives while managing a lifeline to livelihoods, with huge impacts for the informal sector, daily wage-labour and SMEs. So far, the government has shown a disregard for the federal system by ignoring the views of political parties that run a province. Changing the name of the Benazir Income Support Program into the Ehsaas program has left a bad taste in the mouth of those who advocate maturity.The design, delivery and even branding of social protection packages driven by federal and provincial governments, including public philanthropy and state relief in terms of ration-delivery to vulnerable households has raised several issues that should have been directed through parliament”.
The fourth issue Rehman raised was about broad human security. Pointing to the UN’s alarming warnings about food security for developing countries, the Senator said, “Containment-driven lockdowns have raised acute concerns for Pakistan’s rural economy, while cities have already registered “epicentre” transmission concerns for provincial governments. The dangers to lives and public order are grave. The supply chains have to be well managed and monitored. For a country with one of the highest levels of water usage-per capita in the world, impacts on water and food security, as well as availability of sanitizing potable water and low-cost soap compounds at key community points have to be made on urgent basis”.
Fifth, she asked for transparency on resource-allocations by adding that out that, “rising worries about Pakistan’s mushrooming public debt continue to surface, while alarming multilateral predictions of negative growth are surfacing for contracting economies, where resources are too stretched to provide stimulus packages across the board. Terms of renegotiating Pakistan’s rising debt with the IMF are key concerns to us, especially after red flags raised by the World Bank point to serious downturns in projected growth. Given that Pakistan’s total debt and liabilities stand at Rs 41 trillion, which is almost 94 % of the country’s GDP, the magnitude and gravity of public finances merits a clear need of scrutiny”.
While concluding Senator Rehman said, “The risk to Pakistan is compounded by rising tensions in the region. What is worrying is the ongoing tension between India and Pakistan, particularly with Indian shelling on the Line of Control, and PM Modi’s exclusionary policies as well as his unacceptable abuse of population in IOK, where risk of disease is clearly high with no transparency or access to fundamental rights”.
 نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کورونا وائرس کے دوران پیدا ہونے والے بحران کو نمٹنے کے لئے پارلیمانی کردار پور زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید بحران سے دوچار ہے، اور فیصلہ سازی، لاک ڈاﺅن، صحت اور اقتصادی پالیسی کی افادیت پر اہم سوال اٹھ رہے ہیں ۔ اس وقت میں پارلیمنٹ کا حکومت کی جانچ پڑتال، اخراجات کو مجاز بنانے ، قانون سازی، اور مشکل اوقات کے دوران قیادت فراہم کرنے کے انتہائی اہم کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ ہنگامی صورتحال میں بحث و مباحثہ ، گفتگو اوراصلاحات کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔
اپنے ایک بیان میں سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بجا طور پر ہر طرف سے اتحاد کی پکار بڑھ رہی ہے ، جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ، خصوصا سینیٹ آف پاکستان کا پہلا کام بحران کے وقت ہم آہنگی اور اتحاد پیداکرنا ہے اوراس بات کو بھی یقینی بنانا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی بھی صوبہ پیچھے نہ رہے۔ یہ کام ابھی تک کسی بھی پارلیمنانی فورم یا مشترکہ مفادات کونسل جیسے اہم آئینی فورموں کے ادارہ جاتی کے بغیر ایگزیکٹو اجلاسوں میںہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ قائمہ کمیٹیاں بحران میں ہونے والے فیصلوں کا مشورہ یا آڈٹ نہیں دے سکی ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں حکومتوں کے ذریعہ جمع کردہ اعداد و شمار کی شفافیت پر تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔معلومات اور حقائق کی عدم موجودگی ، صحت کے بحران کی ناتجربہ کاری ، انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی عوامی سطح پر خدشات میں اضافہ کررہے ہیں جس کی وضاحت ، سمت اور قیادت کی ضرورت ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کمیٹیوں کے غیر فعال ہونے پر اپنے بیان میں کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کو علم اور اطلاعات کی ضرورت ہے۔ صحت کے اعداد و شمار ، اپنے موجودہ ادارہ جاتی اور مالی خلیج کے ساتھ صوبوں کے مابین تنازعات کی ہڈی بن چکے ہیں ، جو باخبر رائے کی عدم موجودگی میں اکثر ایک دوسرے کے ساتھ فیصلے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قرنطین اور بارڈر مینجمنٹ جیسے معاملات میں ناقص فنی نگرانی کا باعث بنتے ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ اس سے عوام میں پالیسی اور اس کے نظم وضبط کے بارے میں تفتیش ، ڈاکٹروں کو حفاظتی پوشاک کی فراہمی ، عوامی اجتماعات کی نگرانی اور ریاستی یکسانیت کے بارے میں سنجدہ سوالات کھڑے ہوئی ہیں۔
ٹائیگر فورس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رضاکارانہ گروہوں جیسے “ٹائیگر فورسز” کو امدادی فراہمی کے لئے متحرک کیا جارہا ہے ، اسی طرح صوبوں کی قیادت کے مابین مقابلہ کرنے والے عمل نے ہم آہنگی کی پالیسی کے بجائے تنازعات جنم لے رہے ہیں ۔اس کے نتیجے میں ریاست اور عقیدے کے مابین خلاءبڑھ رہا ہے ، لوگ نماز کے اجتماعات کے لئے ریاستی قواعد و ضوابط بغیرعبادات کے مقامات کا رخ کررہے ہیں جو وائر کو پھیلاﺅ کا سبب بن سکتا ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ بیشتر ممالک کی طرح ، پاکستان کو بھی اتفاق رائے پر مبنی پالیسی کی تشکیل دینے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس سے معاشیات اور زندگی کی حفاظت کے مابین قابل عمل توازن پیدا ہوتا ہے ،اور جس سے غیر محفوظ غیر رسمی شعبے ، یومیہ اجرت مزدوری اور ایس ایم ایز پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔
وفامعاشی پیکج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذریعہ چلائے گئے معاشی تحفظ کے پیکیجز، جن میں کمزور گھرانوں کو راشن کی فراہمی کے معاملے میں عوامی خدمت اور ریاستی ریلیف شامل ہے ، ان کے ڈیزائن ، ترسیل اور یہاں تک کہ برانڈنگ نے کئی ایسے معاملات اٹھائے ہیں جن کی پارلیمنٹ کو نگرانی کرنی چاہئے تھی۔ آئینی طور پر بنایا گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بغیر کسی ترمیم کے احسان پروگرام نام دے کر پیپلز پارٹی کو مثبت پیغام نہیں دیا گیا۔
شیری رحمان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے غذائی تحفظ کے بارے میں اقوام متحدہ کی انتباہات نے پاکستان کی دیہی معیشت کے لئے شدید خدشات کو جنم دیا ہے ، جبکہ شہری مراکز کو پہلے ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس کاایپی سینڑکا درجا دیا ہے۔ زندگی اوعوام کو لاحق خطرات سنگین ہیں۔ باضابطہ معیشت کے ساتھ ساتھ سپلائی چین کو بھی ایسی صورتحال میںیقینی بنانا ہوگا جہاں معاشرتی دوری کی ضرورت نے معیشت کے ہر حصے میں غیر معمولی رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ ایک ایسے ملک کے لئے جو دنیا میں فی کس پانی کے استعمال کی اعلی ترین سطح میں شامل ہوتا ہے ، پانی اور کھانے کی حفاظت پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ کلیدی کمیونٹی پوائنٹس پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کم لاگت والے صابن کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
گرتی ہوئی شرح نوم پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ملک کے ان تمام شعبوں کو ان پٹ اور بصیرت فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں عوامی قرضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور منفی شرح نمو کی خطرناک پیش گوئیاں بڑھ رہی ہیں ۔۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے قرض کی سخت کی شرائط ہمارے لئے کلیدی خدشات میں شامل ہیں ، خاص طور پر جب عالمی بینک نے شرح نمو میں سنگین کمی کی طرف اشارہ کیاہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ذمہ داری 41 کھرب روپے ہے ، جو ملک کے جی ڈی پی کا تقریبا 94 فیصد ہے ،عوام اور ملک کی مالیاتی وسعت اور موجودہ بحران میں اس کی نظرثانی کی ضرورت ہے۔
خطے پر بات کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ خطے میں بڑھتی کشیدگی سے پاکستان کو بھی خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت نے جنگ کا طبل بجانے کے بعد اچانک سارک ملاقاتیں طلب کی ہیں ، پاکستان کوعلاقائی اعتماد سازی کے راستوں پر بات چیت کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی خصوصا لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی گولہ باری سے ، اور وزیر اعظم مودی کی خارجی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے ساتھ ناقابل قبول زیادتی کے واقعات جاری ہیں ، وہاں بیماری کا خطرہ واضح طور پر زیادہ ہے جس میں شفافیت یا رسائی نہیں ہے۔دوسری طرف کابل کی امریکی انخلا کے تناظر میںکورونا وائرس کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی تشویش ناک ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ دستورکا آرٹیکل 67 1پارلیمنٹ کو اپنے طریقہ کار اور اس کے کاروبار کو چلانے کے لئے قواعد بنانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ آئین پاکستان ایک زندہ دستاویز ہے جو بین الاقوامی بحرانوں میں اپنے لوگوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کورونا وائرس دوسری عالمی جنگ کی شدت کے پیمانے پر پورا اترتا ہے جس نے ہر چیرکے ساتھ جمہوری طریقہ کار کوبھی متاثر کیا ہے۔

No comments: