Wednesday, April 15, 2020

خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے شرح اموات زیادہ اور ریکوری کم کیوں ہے؟

   
انیلا خالد 

حکومتی اعدادوشمار کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبے کے کل 865 کیسز میں شرح صحت یابی 21 فیصد اور شرح اموات 4 فیصد ہے۔ ہلاکتوں کی یہ تعداد پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، تاہم اگر تمام صوبوں کا الگ الگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شرح اموات اور شرح صحت یابی (ریکوری) کچھ صوبوں میں نمایاں طور پر کم یا زیادہ ہے۔
یہ وجوہات جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہر صوبے میں شرح اموات اور صحت یابی کا تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔
کووڈ 19 کے حوالے سے اعداد و شمار دینے والی حکومتی ویب سائٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے مجموعی کیسز کی تعداد 2945 ہے جس میں شرح 
صحت یابی 17 فیصد اور شرح اموات ایک فیصد ہے۔
دوسری جانب صوبہ سندھ میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کُل تعداد 1518 ہے، جس میں شرح صحت یابی 28 فیصد اور شرح اموات دو فیصد ہے۔ یعنی اس صوبے میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کی شرح پنجاب سے زیادہ ہے، جب کہ شرح اموات بھی پنجاب کی نسبت زیادہ ہے۔
بلوچستان میں اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 240 ہے، جس میں شرح صحت یابی 57 فیصد اور شرح اموات ایک فیصد ہے، جو کہ صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کل 865 کیسز میں شرح صحت یابی 21 فیصد اور شرح اموات 4 فیصد ہے۔
اگر اس تناسب کا پاکستان کے دیگر صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو خیبرپختونخوا میں اموات کی شرح کافی زیادہ ہے۔
(سکرین گریب)

خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے صحت یابی کی شرح کم ہونے اور اموات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر صحت تیمور جھگڑا سے رابطہ کرنے کی متعدد مرتبہ کوشش کی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔
وزیر صحت تیمور جھگڑا سے کیے گئے سوالات یہ ہیں:
1۔ خیبر پختونخوا میں باقی صوبوں کی نسبت کرونا وائرس سے زیادہ اموات اور کم شرح صحت یابی کی وجہ کیا ہے؟
2۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس صوبے میں متاثرہ افراد کی تعداد درحقیقت زیادہ ہے لیکن ٹیسٹ کم ہو رہے ہیں؟
3۔ کیا خیبر پختونخوا میں وائرس سٹرین کی جانچ پڑتال کی گئی ہے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہیں یہ وائرس کی وہ قسم تو نہیں، جو زیادہ مہلک ہے؟ 
4۔ خیبرپختونخوا میں کرونا ٹیسٹ کی روزانہ کی استعداد صرف 500 تک  ہے جبکہ سندھ اور پنجاب میں روزانہ دو سے چار ہزار تک ٹیسٹ ہورہے ہیں۔ یہ تعداد کیوں بڑھائی نہیں گئی؟
5۔ صوبے میں اس وائرس سے اب تک 38 اموات واقع ہو چکی ہیں، کیا پبلک ہیلتھ اور دیگر متعلقہ اداروں کو مختلف عوامل، مشاہدوں اور تجزیوں سے اس وائرس کا رویہ معلوم کرنے کے لیے ریسرچ سٹڈیز کے احکامات جاری کیے گئے ہیں؟
طبی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
خیبر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسر ضیا الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یہ اعتراف کیا کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے ان کے ڈیپارٹمنٹ کو کرونا وائرس سے متعلق سوالات و مشاہدات پر ریسرچ کرنے کے لیے کسی قسم کے احکامات نہیں ملے ہیں۔
تاہم ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ انہوں نے خود ہی پہل کرتے ہوئے ہسپتالوں کی مدد سے کرونا وائرس کے حوالے سے مختلف زاویوں پر ریسرچ کرنی شروع کر دی ہے۔
واضح رہے کہ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کام ریسرچ اور مشاہدہ کرکے ریسرچ سٹڈیز تیار کرنا ہوتا ہے، جو کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ضیا نے خیبر پختونخوا میں شرح اموات زیادہ اور صحت یابی کی شرح میں کمی کی وجوہات کچھ یہ بیان کیں۔
پہلی وجہ
 خیبر پختونخوا میں جن علاقوں میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز سامنے آئے وہاں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ ہونے چاہیے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بقول ان کے: 'اس کا اندازہ آپ خیبر پختونخوا کے کل کیسز  سے لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر 10 ہزار کیسز ہوتے تو اس میں 38 اموات اتنی زیادہ نہ ہوتیں۔'
دوسری وجہ
دور دراز علاقوں کے رہائشی ٹیسٹ کی سہولت نزدیک نہ ہونے کے باعث یا تو تاخیر سے جاتے ہیں یا پھر جاتے ہی نہیں۔
تیسری وجہ
لیبارٹریز کی بہت کمی ہے۔ ابھی تک صرف خیبر میڈیکل یونیورسٹی پورے صوبے کا کام سنبھال رہی ہے۔
چوتھی وجہ
ڈاکٹر ضیا سے جب پوچھا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خیبر پختونخوا کے وائرس سٹرین اور دوسرے صوبوں کے وائرس سٹرین میں فرق ہو تو انہوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ 'وائرس کے طریقہ واردات سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ ایک ہی وائرس سٹرین ہے۔'
تاہم وہ اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ یہ محض ایک اندازہ ہے اور اس پر ابھی تک کوئی عملی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
پانچویں وجہ
ڈاکٹر ضیا سمجھتے ہیں کہ حکومت اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کام یہ تھا کہ قرنطینہ مراکز کی بجائے فیلڈ ہسپتال قائم کیے جاتے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’80 سے 85 فیصد مریض مائلڈ یا موڈریٹ علامات کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کا علاج فیلڈ ہسپتالوں میں ہوتا تو صرف شدید بیمار مریضوں کو ہسپتال کے آئی سی یو میں رکھا جاتا۔لیکن اس وقت صرف قرنطینہ مراکز ہیں جہاں سب کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے، نتیجتاً سب میں وائرس پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔'
گلگت بلتستان میں شرح صحت یابی زیادہ اور شرح اموات کم کیوں؟
گلگت بلتستان میں اس وقت کرونا وائرس سے صحت یابی کی شرح تمام ملک سے زیادہ یعنی 74 فیصد اور شرح اموات ایک فیصد ہے۔ آج بھی گلگت بلتستان میں 20 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ یہاں کرونا کے مجموعی کیسز 234 ہیں۔
اس کی وجوہات جاننے کے لیے دیامیر کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر صلاح الدین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان کو جانے والی تمام سڑکوں کے انٹری پوائنٹس پر سکریننگ کے عملے کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا: 'ان پوائنٹس پر تین گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ جوں ہی کسی کا درجہ حرارت زیادہ یا علامات مشکوک ہوں، اسے فوراً وہاں سے قرنطینہ مرکز لے جایا جاتا ہے۔ پورے گلگت بلتستان سے ٹیسٹ گلگت کی لیبارٹری میں جارہے ہیں اور 24 گھنٹے میں نتائج آ جاتے ہیں۔'
ڈاکٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ان کے پاس روزانہ 30 سے 40 ٹیسٹس کرنے کی صلاحیت ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ گلگت بلتستان میں شرح صحت یابی زیادہ اور شرح اموات کم کیوں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ اچھی آب وہوا ہو یا پھر پہاڑی علاقے کے لوگوں کی قوت مدافعت بہتر ہو۔'
ایک نئی امریکی طبی تحقیق نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا کرونا وائرس کی وجہ سے پھیپھڑے تھک کر نظام خون پر اثرانداز ہوتے ہیں یا پھر خون میں سرخ خلیات جسم میں آکسیجن پہنچانے میں ناکام ہوجاتے ہیں؟ کیونکہ کرونا وائرس کی دیگر علامات میں سب سے بڑا مسئلہ سانس لینے میں دشواری کا ہوتا ہے۔
چونکہ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کی اکثریت میں سرخ خلیات زیادہ ہوتے ہیں لہذا خیال کیا جا رہا ہے کہ اسی وجہ سے وہاں صحت یابی کی شرح بھی زیادہ ہو۔

No comments: