سید مجاہد علی
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کراچی اور سندھ کے لوگوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچانے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں ۔ اب انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ تین روز کے لئے ازخود گھروں تک محدود رہیں تاکہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جو کورونا کے خلاف جنگ میں مؤثر اور فوری اقدامات کررہا ہے۔
سندھ میں ایک ماہ پہلے ہی اسکول بند کرنے اور کورونا کے متاثرین کے ٹیسٹ کرنے کا طریقہ شروع کردیاگیا تھا۔ اس کے علاوہ ضلعی سطح پر قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے تعاون کے بغیر کراچی ائیرپورٹ پر بین الاقوامی پروازوں سے آنے والے لوگوں کا کنٹرول کرنے اور وائرس کا سراغ لگانے کا اہتمام کیا۔ اس ہفتہ کے دوران صوبے میں تمام ریستوران، شاپنگ مالز اور ہمہ قسم اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سندھ حکومت کے ترجمان نے سہ روزہ رضاکارانہ آئسولیشن پر زور دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آج جس 77 سالہ شہری کا انتقال ہؤا ہے، وہ کینسر کے علاوہ متعد امراض کا شکار تھا۔ لیکن اس کا کورونا سے متاثرہ یا بیرون ملک سفر کرنے والے کسی شخص سے رابطہ نہیں تھا۔
اس سے یہ یقین پختہ ہؤا ہے کہ کورونا اب صرف بیرون ملک سے آنے والے زائرین یا دوسرے مسافروں ہی کی وجہ سے نہیں پھیل رہا بلکہ اب شہریوں میں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہے۔ لوگوں سے لوگوں تک منتقل ہونے والے کووڈ ۔19 وائرس کو روکنے کے لئے شہریوں کو سخت ڈسپلن کی ضرورت ہوگی اور میل ملاپ کو محدود کرنا ہوگا۔ اسی مقصد سے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور سندھ حکومت نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ آئندہ تین روز تک صرف شدید ضرورت کے تحت ہی گھر سے باہر نکلیں ۔ تاکہ شہریوں میں اس وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکے۔
سندھ حکومت کی ہدایات اور مشورے چین اور دیگر ممالک میں ہونے والے تجربات کی روشنی میں درست ہدایات ہیں۔ عالمی ادارہ صحت بھی بار بار اس بات کی تاکید کرچکا ہے کہ اس وائرس کو روکنے کا واحد مؤثر طریقہ اس کا سرکل توڑنا ہے۔ یعنی لوگوں کے میل ملاپ کو محدود کیا جائے تاکہ وائرس کو زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا موقع نہ ملے۔ اس دوران ایسے تمام لوگوں کے ٹیسٹ کا اہتمام کیا جائے جن میں اس وائرس کی موجودگی کا اندیشہ ہو۔ اسی طریقہ سے وائرس کا شکار ہونے والے لوگوں کو دوسرے شہریوں یا ان کے اہل خاندان سے علیحدہ کرکے، ان کا علاج کیا جاسکتا ہے اور مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ہدایات دراصل چین اور اس کے بعد جنوبی کوریا اور سنگاپور میں کئے گئے تجربات کے بعد تیار کی گئی ہیں۔ امریکہ اور یورپی لیڈروں سمیت تمام حکومتیں ان ہدایات کو اہم مان رہی ہیں اور جلد یا بدیر ان پر عمل کا آغاز کیا گیا ہے۔ تاہم چین اور اٹلی کی مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو فوری ردعمل اور دیر سے اقدامات کرنے کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبئی کے شہر ووہان میں اس وائرس کا سراغ لگایا گیا تھا ۔ شروع میں کچھ سستی کے بعد جب حکام کو اس وائرس کی ہلاکت اور تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کا اندازہ ہؤا تو فوری اقدامات کئے گئے۔
ایک طرف لوگوں کو علاج کی سہولت دینے لئے فوری طور سے متعدد ہسپتال تیار کئے گئے ۔ اور دوسری طرف وائرس سے متاثرین کو عام لوگوں سے علیحدہ کرنے کے لئے آئسولیشن مراکز قائم کئے گئے اور ہزاروں رضاکاروں کے ذریعے لوگوں کو ان مراکز میں منتقل کرنے کے علاوہ گھروں میں محصور ہوجانے والوں لوگوں تک اشیائے خور و نوش پہنچانے کا اہتمام کیا گیا۔ ان فوری اور مؤثر اقدامات کے نتیجے میں اس وقت چین وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ وہاں سے نئے کیسز کی اطلاع موصول نہیں ہورہی۔
چین کے تجربے کے باوجود یورپ اور امریکہ نے اس سے سبق سیکھنے اور قبل از وقت احتیاطی اقدامات کرنے سے انکارکیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لیڈر جنوری کے آخر تک اسے چین کا مسئلہ قرار دے کر کندھے اچکاتے رہے اور کہا جاتا رہا کہ ایسے حالات امریکہ میں پیدا نہیں ہوسکتے۔ اس کی بدترین مثال البتہ اٹلی میں دیکھنے میں آئی۔ وہاں 31 جنوری کو دو چینی سیاحوں میں کورونا وائرس کا سراغ لگایا گیا ۔ تاہم اس کی مناسب روک تھام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ایک ہفتہ بعد ووہان سے اٹلی لوٹنے والے ایک شخص میں کورونا وائرس ملا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے 11 بلدیاتی علاقوں میں یہ وائرس پھیل گیا۔ اٹلی میں شروع میں فوری اقدامات میں تساہل کی وجہ سے اس وقت وہاں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جو چین سے بھی زیادہ ہے۔ پورا ملک اس وقت لاک ڈاؤن میں ہے لیکن وائرس کا پھیلاؤ ابھی تک قابو میں نہیں آرہا۔
چین میں تین ماہ میں اس وائرس سے 81 ہزار افراد متاثر ہوئے اور 3248 ہلاکتیں رجسٹر کی گئیں۔ اس کے مقابلے میں اٹلی میں ایک ماہ کے دوران ہی وائرس کا شکار لوگوں کی تعداد 47 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور جمعہ کی شام تک مرنے والوں کی تعداد 4032 تھی۔ اٹلی میں صرف پانچ ہزار لوگ تندرست ہوسکے ہیں جبکہ چین میں 71 ہزار لوگوں کا کامیابی سے علاج کیا جاچکا ہے۔
اٹلی کے ماہرین اور ڈاکٹر دنیا بھر کو کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کے بارے میں غیر سنجیدگی دکھانے سے منع کررہے ہیں۔ چین کی سرعت و مستعدی اور اٹلی حکام کی سستی کی وجہ سے کورونا کا مقابلہ کرنے کے بالکل مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔ اٹلی کے ماہرین کا مشورہ ہے کہ جن علاقوں یا ملکوں میں ابھی اس وائرس کا آغاز ہی ہؤا ہے وہ فوری طور سے روک تھام کے اقدامات کریں اور اپنی آبادیوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
اس تناظر میں پاکستان میں کورونا وائرس اور اس سے نمٹنے کی پالیسی پر نگاہ ڈالی جائے تو سندھ حکومت چین کے ماڈل پر عمل کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن وفاقی حکومت نہ تو سید مراد علی شاہ کی دلیرانہ قیادت اور مخلصانہ کوششوں کو سراہنے پر تیار ہے اور نہ ہی اس سے سبق سیکھ کر ملک کے دوسرے حصوں خاص طور سے پنجاب میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس طرح وہی غلطی دہرائی جارہی ہے جس کا خمیازہ اٹلی بھگت رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی طرف سے سندھ میں رضاکارانہ آئسولیشن کی درخواست کے مقابلے میں وزیر اعظم عمران خان کا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ شہروں کو لاک ڈاؤن کر نے سے غریب بھوکے مرجائیں گے۔اس لئے ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے جو باتیں بھی کی ہیں وہ دنیا میں اس وائرس کے پھیلاؤ کی صورت حال اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات اور مشوروں کے برعکس ہیں۔
ان کا بس اس ایک نکتہ پر اصرار ہے کہ پاکستان غریب ملک ہے اور اس کے غریب لوگ اگر گھروں سے باہر نہ نکل سکے تو وہ بھوکے مرجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کورونا وائرس پھیل گیا تو حکومت کے پاس متاثرین کے علاج کے وسائل اور صلاحیت نہیں ہے۔ اس بیان سے وہ ایک طرف عالمی اداروں اور امیر ملکوں سے امداد لینے کی امید کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام کی طرف سے خود پر بطور وزیر اعظم عائد ہونے والی ذمہ داری سمجھنے اور پوری کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
یہ بات عام طور سے قابل فہم ہے کہ کورونا وائرس کے موجودہ بحران کی سنگین صورت میں پاکستان جیسے غریب ملکوں کی حکومتیں مجبور محض ہوں گی ،لیکن دنیا کا کوئی لیڈر کسی بھی مشکل میں اپنے لوگوں کو بے حوصلہ کرنے کے لئے ایسی گفتگو نہیں کرتا جو اس وقت عمران خان کا شعار ہے۔ وہ خوف کو کورونا سے زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ انہیں کورونا وائرس کی نوعیت اور اس کے پھیلاؤ کی وجوہات کے بارے میں بنیادی معلومات بھی حاصل نہیں ہیں۔
یہ طرز عمل دراصل عمران خان کے اپنے خوف اور نااہلی کا آئینہ دار ہے۔ تمام سیاسی زندگی کے دوران مخالفین کو بزدل اور کم ہمت اور خود کو بہادر اور حوصلہ مند کہنے والا عمران خان اس وقت ایک ناکام ، کم حوصلہ اور شکست خوردہ لیڈر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وہ نہ تو یہ جانتا ہے کہ اس موقع پر لوگوں کا مورال بلند رکھنے کے لئے کیسی باتیں کرنے اور حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس میں اتنی ہمت ہے کہ سندھ میں کورونا کا کامیابی اور جرات سے مقابلہ کرنے والے سید مراد علی شاہ کی توصیف کرے اور ان سے رابطہ کرکے سندھ کے تجربہ کی روشنی میں باقی ماندہ ملک میں بھی حفاظتی و احتیاطی اقدامات کرنے کی کوشش کی جائے۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے اکسانے کے باوجود وفاقی حکومت اور عمران خان پر تنقید سے گریز کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ قومی بحران کی موجودہ صورت حال میں نکتہ چینی کی بجائے تعاون اور کورونا کے تدارک کی مہم کو توانا کرنا اہم ہے۔ کیا عمران خان اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر بلاول بھٹو زرداری کی سنہری حروف سے لکھی جانے والی اس مثال کی پیروی کرنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں۔ سندھ کی صورت حال سے سبق سیکھتے ہوئے اب بھی پنجاب کے عوام کو بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن کورونا سے جاری جنگ میں ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔
ملک کے وزیر اعظم اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ابھی تک کورونا سے پیدا ہونے والے بحران کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ اب دیر کردی گئی تو عمران خان کو ساری زندگی اپنی کوتاہی اور کم حوصلگی کی تلافی کا موقع نہیں مل سکے گا۔
No comments:
Post a Comment