فاروق طارق
یثرب تنویر گوندل جو لال خان کے نام سے مشہور ہوئے کو 22 فروری کو ان کے آبائی گاؤں بھون ضلع چکوال میں سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی بھرپورانقلابی زندگی کی طرح ان کا جنازہ بھی ایک انقلابی واقعہ بن گیا۔ اگر وہ اس کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوتے تو اپنی تدفین کی تقریب کو دیکھ کر بھی خوش ہوتے۔ مذہبی، ثقافتی اور انقلابی روایات کا حامل لال خان کا جنازہ بھون کے رہائشیوں کے لئے حیران کن تھا۔
ملک بھر سے سینکڑوں مارکسی کارکن بھون پہنچے جہاں لال خان نے اپنی زیادہ تر کتابیں اور مضامین قلمبند کیے۔ بھون ایک پرانا گاؤں ہے جہاں آج بھی برطانوی راج کی کئی یادگاریں نظر آتی ہیں، خاص طور پر یہاں کا متروک شدہ ریلوے اسٹیشن اس دور کی نمایاں یادگار ہے۔
لال خان کی تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانی آبائی حویلی اب بھی اچھی اور اپنی پرانی حالت میں ہے۔ ان کی بہن بتول اسٹاک ہوم منتقل ہونے کے باوجود چھ ماہ ہر سال یہاں گزارتی ہیں تا کہ حویلی کی دیکھ بھال ہوتی رہے۔
کلر کہار سے ایک بل کھاتا پہاڑی راستہ بھون کی طرف جاتا ہے، قدرتی نظاروں سے گھرا ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ لکھنے پڑھنے کے دنوں میں لال خان اپنے گاؤں کا رخ کرتے تھے۔ تاہم 22 فروری کو بھون غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب ان کے ساتھی انہیں اٹھائے جنازگاہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو لال خان کا جنازہ سرخ پرچموں والے انقلابی مارچ میں بدل گیا۔ بھیگی آنکھوں والے سوگوار ساتھی نعرے لگا رہے تھے۔ ”سوشلسٹ انقلاب ہماری منزل“ کا نعرہ سب سے زیادہ لگایا گیا۔ مقامی پیش امام نے اس عوامی ہیرو کی نماز جنازہ پڑھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں حاضری تھی۔ نماز کے بعد سرخ جھنڈے پھر سے لہرائے گئے۔ بہت سے لوگ مل کر نعرے لگارہے تھے، ’لال خان! ترا مشن ادھورا، ہم سب مل کر کریں گے پورا‘، ’سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے‘۔
جب انھیں سپرد خاک کیا گیا، تو لال خان کے نوجوان سپاہی اویس قرنی نے ایک انقلابی پیغام پڑھا۔ اس کے بعد، لال خان کے قریبی ساتھی اور دوست جواد احمد نے سینکڑوں کامریڈز کے ہمراہ ’انٹرنیشنل‘گایا۔ پہلی اور دوسری مارکسسٹ انٹرنیشنل کا یہ ترانہ ایک ٹرانسپورٹ کے کارکن نے 1871ء میں فرانسیسی حکومت کی طرف سے پیرس کمیون کو کچلنے کے بعد لکھا تھا۔ بعد میں یہ سوویت یونین اور تیسری انٹرنیشنل کا ترانہ بن گیا۔
میں رات بھر سے جاگا ہوا تھا اور مجھے چند گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اپنے اس ساتھی کامریڈ کے جنازے میں شریک ہونا تھا جس کے ساتھ میری 1980ء سے شناسائی تھی۔ جب ہم پہلی بار ایمسٹرڈیم میں جلاوطنی کے دوران ملے تو ہم فوراً دوست اور ساتھی بن گئے۔ کچھ مزید ساتھیوں کے ساتھ ہم نے نئی انقلابی روایات کے ساتھ پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ ضیا آمریت کے کالے دِنوں میں ”جدوجہد“ ہمارا سیمی اوپن گروپ تھا۔ ہمارا پہلا بڑا منصوبہ اردو اور انگریزی میں جریدہ ”جدوجہد“ کی اشاعت تھا۔ یہ جلاوطنی کی سب سے کامیاب اشاعت تھی۔ ہم نے ان برسوں میں مشترکہ طور پر مظاہرے، جلسے اور مطالعے کے حلقوں کا اہتمام کیا تاکہ یورپ بھر میں مقیم پاکستانیوں کو منظم کیا جا سکے۔ اس دوران لال خان نے مجھ سے زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے وریجی یونیورسٹی ایمسٹرڈیم سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی، جہاں ہم دونوں نے داخلہ لیا تھا۔ میں نے ”جدوجہد“ گروپ کو پورا وقت دینے کیلئے صحافت میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم ادھوری چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
ضیا آمریت کے خلاف ہمارا کامیاب احتجاج 1982ء میں نیدرلینڈ کے شہر ایمسٹلوین میں چیمپئنز ٹرافی ہاکی کے فائنل کے دورن رہا جس میں پاکستان بھی کھیل رہا تھا۔ ہمارا یہ احتجاج پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر چند منٹ براہ راست نشر بھی ہو گیا جس پر ضیا آمریت کو سخت غصہ آیا۔ ہمیں پاکستان واپس لانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ جدوجہد گروپ کے ارکان کو ہائی جیکنگ کے ایک جعلی کیس میں ملوث کیا جائے۔ اگست 1982ء میں لال خان سمیت ہم اٹھارہ افراد کو ہالینڈ کے مختلف شہروں سے گرفتار کیا گیا۔ ڈَچ میڈیا میں کچھ عرصے کے لئے یہ ایک سنسنی خیز معاملہ رہا۔ الزام لگایا گیا کہ ہم نے ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر پی آئی اے کے جیٹ طیارے کو ہائی جیک کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ در حقیقت ڈَچ پولیس کو پاکستانی ڈکٹیٹر کے ایک ایجنٹ کے ذریعے فراہم کردہ غلط معلومات سے بے وقوف بنایا گیا۔ مختصراً یہ کہ ہمیں رہا کردیا گیا۔ جب ہم حکومت کو عدالت میں لے گئے تو ڈَچ حکومت نے ہمارے گروپ سے باضابطہ طور پر معافی مانگ لی۔
جلاوطنی کے آٹھ سال بھرپور سرگرمیوں میں گزرے۔ ہمارا مقصد ایک نئی سیاسی تحریک کی بنیاد رکھنا تھا۔ ہمارے نظریاتی گرولیون ٹراٹسکی تھے۔ ہم نے کارل مارکس، لینن اور ٹراٹسکی کو گہرائی کے ساتھ پڑھا اور ان کی کچھ تحریروں کا ترجمہ بھی کیا۔ ہم نے ایمسٹرڈیم کے مشہور ڈیم اسکوائر کے عین قریب ”جدوجہد“ کا ایک سیاسی دفتر قائم کیا۔ یہ سال امید سے بھر پورتھے۔
یکم جنوری 1986ء کو جب مارشل لا ختم کیا گیا تو ہم پاکستان واپس آئے۔ پاکستان میں جدوجہد کرنے والے گروپ کی تشکیل کیلئے ہمارا بنیادی ہدف پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر انٹر ازم تھا، تاکہ ایک بڑی عوامی جماعت کی نیٹ ورکنگ کے ذریعے ہم قلیل مدت میں نئی سیاسی تحریک کیلئے انقلابیوں کی کھیپ تیار کر سکیں۔ اس حربے نے کچھ وقت کیلئے تو کام کیا لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ 1991ء میں ”جدوجہد کی نیشنل کمیٹی“ میں لال خان کو مکمل اکثریت حاصل رہی جبکہ ہم میں سے کچھ افراد نے پیپلز پارٹی چھوڑنے اور مزدور طبقے کی الگ پارٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں کچھ برسوں کیلئے ہم میں علیحدگی ہو گئی۔ ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ میں اس رجحان کا حصہ بن گیا جس نے لیبر پارٹی پاکستان کا آغاز کیا جبکہ لال خان نے پیپلز پارٹی اور مزدور تحریک کے اندر کام کرنے کا انتخاب کیا۔
لال خان ایک شاندار مقرر تھے اور کوئی بھی ان کی مارکسی تاریخ کے علم سے میل نہیں رکھتا تھا۔ وہ بالشوازم خاص طور پر لیون ٹراٹسکی کی ایک سیاسی لغت تھے۔ نوجوانوں کو تحریک دینے کی ان میں کرشماتی صلاحیت موجود تھی۔ وہ بغیر نوٹس کے گھنٹوں اپنے سامعین کو مسحور رکھنے پر قادر تھے۔ ان کی تنظیم ”طبقاتی جدوجہد“ کی اٹھان میں ایوان اقبال لاہور میں منعقد کردہ سالانہ کانگریسوں کو خصوصی اہمیت حاصل رہی جس میں سینکڑوں مندوب دو دن کیلئے جمع ہوتے اور پاکستان کے سیاسی تناظر میں تنظیمی اور سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جاتا۔
لال خان بہت سخی انسان تھے اور اپنی وراثتی دولت کو اپنی سیاسی سرگرمیوں میں صرف کرنے میں دریغ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے دولت مند دوستوں سے بھی فنڈ اکٹھے کرنے میں ماہر تھے۔
ایک سینئر آرمی افسر کا اکلوتا بیٹا اور تین محبت کرنے والی بہنوں کا بھائی، لال خان پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا کردار تھا۔ اس نے سیمی اوپن مارکسسٹ گروپ بنانے میں نئی حکمت عملی اور تدبیریں متعارف کرائیں۔ ان کے ”انٹرسٹ حربوں“ کے ذریعے ان کے ایک ساتھی چودھری منظور احمد 2002ء میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ چودھری منظور نے 2008ء میں عام انتخابات میں شکست کھائی اور لال خان کا اعتماد بھی کھودیا۔ 21 فروری 2020ء کو ان کی موت تک ان دونوں کی راہیں جدا رہیں۔ تاہم چودھری منظور لال خان کے جنازے کے سوگواروں میں شامل تھے۔ لال خان کا ایک اور قریبی ساتھی ایم این اے علی وزیر ہے، جو اشرافیہ کی پارلیمان میں مارکسٹ رکن ہونے پر فخر کرتا ہے۔ وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ جنازے کا حصہ تھا۔
گزشتہ چار سال سے میں اور لال خان پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہوگئے۔ ہماری مباحثوں کے نتیجے میں لاہور لیفٹ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا اور موچی گیٹ کے یادگار جلسہ عام کا انعقاد ہوا جہاں پی ٹی ایم کے بیشتر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ وہ فیض امن میلہ کے باقاعدہ مقرر تھے۔ ان کی آخری عوامی موجودگی 29 نومبر 2019ء کو منعقدہ تاریخی طلبہ یکجہتی مارچ میں تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن میرے اصرار پر وہ ہزاروں طلبہ سے خطاب کرنے آئے۔ 2019ء میں ایوان اقبال لاہور میں ”طبقاتی جدوجہد“ کی اپنی آخری کانگریس کے دوران وہ بے ہوش ہوگئے۔ انمول ہسپتال لاہور میں پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ میں کیموتھراپی کے دردناک سیشنوں کے دوران ان کے ساتھ رہا۔ مستقبل کی حکمت عملی پر ہمارے طویل مباحثے کے دوران ان کا مشہور جملہ’میں آخر تک لڑوں گا‘، کینسر کے خلاف سال بھر کی لڑائی کے دوران بھی ان کی زبان پر رہا۔ وہ ہمیشہ مجھے محبت بھرے انداز میں ”میرے چیئرمین“ کہہ کر مخاطب کرتے۔ 21 فروری کو چیئرمین نے اپنا ایک قابل اعتماد ساتھی کھو دیا لیکن سوشلسٹ سماج کی امید نہیں کھوئی۔
No comments:
Post a Comment