ایک طرف قومی سلامتی کے معاملات ہیں جہاں پر سوالات بے تحاشا تو جوابات کی قلت ہے اور دوسری طرف سیاست کا میدان ہے جس پر ہر کوئی بے لاگ تبصرہ بھی کرتا ہے اور اندازے بھی لگاتا ہے۔ ان دونوں معاملات کا بظاہر آپس میں تعلق نظر نہیں آتا لیکن اگر غور کریں تو ایک لحاظ سے گہرا تعلق ہے بھی۔
اس میں بحیثیت قوم ہمارے اجتماعی رویوں کی جھلک ملتی ہے. خاص طور پر فیصلہ سازی میں رابطےکے اس جھول کی ۔۔۔جس کی شکایت کم و بیش ہر سیاسی حکومت کو رہی ہے۔ یہ بھی اندازہ ہو جاتاہے کہ دور اندیشی کا فقدان ہمارا مجموعی مزاج ہے اور ایڈہاک طریقے سے معاملات چلانے کا طریقہ ہرشعبے میں نمایاں ہے۔ عوام کے جذبات کی ترجمانی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے مگر ان کی سکت اور استطاعت کا بھی معلوم ہو جاتا ہے اور سول سوسائٹی کتنے پانی میں ہے اس کا بھی اندازہ ہوگیا ہے۔
جہاں پر بنیادی معاملات کا ہی ابھی تک تعین نہیں ہو سکا وہاں پیچیدہ اور نازک مسائل کیا حل ہوں گے۔ جہاں سیاسی جماعتوں کے اپنے ہی گھر شکست و ریخت سے گزر رہے ہیں وہاں قومی مسائل خود ہی پس و پشت چلے جاتے ہیں۔
اب خود ہی دیکھ لیں کہ کس طرح ملک کی دو بڑی جماعتیں فی الحال اپنے اندر ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہیں۔ تحریک انصاف اس وقت اڑان کے پونے دو سال بعد سیاسی ایئر پاکٹس میں پرواز کو نا ہمواری سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ ساتھ ساتھ قیادت اپنی پارٹی پر گرفت رکھنے کی تگ و دو بھی کر رہی ہے۔ فیصلہ سازوں کے کنارہ کش ہونے کے واضح اشارے سامنے آچکے ہیں جس کا آسان پیمانہ میڈیا میں ایک خاص حلقے کے بدلے بدلے لہجے ہیں۔
دوسری طرف نواز لیگ نظریاتی گیئر بدل کر اب تابعداری گیئر لگا چکی ہے۔ ن لیگ میں ہی ایک تگڑی رائے یہ ہے کہ اب چونکہ حالات سازگار ہیں اور اچھے دن آنے والے ہیں تو آگے بڑھ کر کسی ان ہاؤس تبدیلی میں تعاون کرنا چائیے۔ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنی چاہیے اور اگلے انتخابات سے پہلے خاص طور پر پنجاب میں اپنے قدم دوبارہ جما لینے چائیے۔ دوسرا اپنے بل بوتے پر نئے انتخابات جیتنے کا بھرپور یقین ہے ۔ یہ گروپ پانچ سالہ نقطہ نظر اور مڈ ٹرم الیکشن کے مطالبے پر زوردینے کے حق میں ہے۔ انہیں تحریک انصاف کی غیر متاثرکن کارکردگی کے باوجود نئے مینڈیٹ کے تحت ہی اقتدار میں شراکت داری قبول کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال کون سے کیمپ کا موقف قیادت کی حکمت عملی میں تبدیل ہوتا ہے اس کا جواب جلد ہی مل جائے گا۔
کچھ عرصہ پہلے جب لکھا کہ آپریشن تبدیلی کے رول بیک پر غور و فکر کا آغاز ہو چکا ہے تو یہ بات پی ٹی آئی میں کچھ لوگوں کو ناگوار گزری لیکن حقیقت یہی ہے کہ سال 2019 کے اوائل سے ہی اس کے بارےمیں سنجیدہ غور شروع ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ غیر یقینی صورتحال جو اس حکومت نے پیدا کی ہے۔ جو معاشی میدان میں بھی ہے اور انتظامی شعبہ میں بھی۔ الزام تراشی صورتحال کا وقتی توڑ تو ہو سکتی ہے چاہے وہ سابق حکومت کے خلاف ہو ، ’منفی‘ سوچ والے میڈیا پر ہو یا پھر حکومت کےخلاف سازشوں کے ذکر کی صورت میں ہو لیکن یہ چیلنجز کا موثر اور دیر پا حل ہر گز نہیں ہے۔
غور کرنے کی البتہ بات یہ ہے کہ محلاتی سازشیں آخر کس کے خلاف نہیں ہوتیں۔ اقتدار کی غلام گردشیں ہمیشہ ہی سازشوں کا گڑھ ہوتی ہیں ۔ حکومت انہی سازشوں کے بیچ اپنا راستہ نکالتی ہے۔ ڈیڑھ سال شاید تحریک انصاف کی کارکردگی کا تعین کرنے کے لیے طویل عرصہ نا ہو مگر اس سے حکومت کی سمت اور سنجیدگی کا ضرور پتہ چلتا ہے ۔
احسان اللہ احسان سے لے کر سیاسی غیر یقینی تک سارے واقعات سے ایک بات تو واضح ہے کہ اقتدار مشکل فیصلوں کا نام ہے چاہے وہ سیاست میں ہوں یا قومی سلامتی میں۔ کوئی بھی حکومت خود غیرحاضر ہو کر اپنے مشکل فیصلے آؤٹ سورس یا نظر انداز نہیں کر سکتی۔ انہی مشکل فیصلوں کے دوران اس کو گورننس بھی کرنی ہے اور مستقبل کے لیے وراثت بھی چھوڑنی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی سیاسی وراثت کیا ہے؟ اب تو یہ خوف بھی سامنے ہے کہ کہیں یہ حکومت تاریخ میں صرف مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کے لیے ہی یاد رکھی جائے اور تاریخ کے اوراق میں جب پی ٹی آئی کا ذکر آئے تو ذہن میں نام آئے ’غیر حاضر حکومت‘۔
No comments:
Post a Comment