Monday, February 10, 2020

’مشرف کے فارم ہاؤس کو بھی یتیم خانہ بنائیں گے؟‘


پنجاب حکومت نے دو روز قبل سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ میں تبدیل تو کیا لیکن اس محل نما گھر میں 21 بے گھر افراد صرف دو راتیں ہی گزار سکے۔
پناہ گاہ کے ضابطے کے مطابق یہاں صرف رات گزارنے کی اجازت ہوتی تھی اور شام کا کھانا اور صبح کا ناشتہ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔
تاہم اب عدالتی حکم پر اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر قیام کرنے والوں کو پیر کی رات یہاں گزارنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
آج لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت پنجاب نے ان کے گھر کو غیر قانونی طور پر پناہ گاہ میں تبدیل کیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہائش گاہ کی نیلامی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے اور اس گھر کی احتساب عدالت کے حکم پر نیلامی کا عمل بھی روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔
درخواست کے مطابق: ’اس رہائش گاہ پر پناہ گاہ بنانے کا عمل بھی پنجاب حکومت کی جانب سے خلاف آئین اور خلاف قانون اقدام ہے جبکہ پنجاب حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔‘
عدالت نے درخواست پر سماعت کے بعد اسحٰق ڈار کے گھر، جو ان کی اہلیہ کے نام پر ہے، کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور پنجاب حکومت سے دس روز میں جواب طلب کرلیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بعض سیاسی شخصیات اور سینیئر صحافیوں کی جانب سے اسحٰق ڈار کے مکان کو پناہ گاہ بنانے کے اقدام کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اگر حکومت کو ایسا کرنا ہی ہے تو سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو بھی شیلٹر ہوم بنایا جائے۔
سینیئر صحافی حامد میر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں پرویز مشرف کا وسیع و عریض فارم ہاؤس بھی ضبط شدہ جائیداد ہے یہاں پر بھی ایک عظیم الشان شیلٹر ہوم بن سکتا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بھی اسی بارے میں بات کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’اسحٰق ڈار کے مکان کو پناہ گاہ میں تبدیل کرکے عمران خان نے خود کو انتہائی گرا دیا ہے۔ کیا وہ ایک اور مفرور جنرل مشرف کے اسلام آباد میں فارم ہاؤس کو یتیم خانہ بنائیں گے؟‘
دوسری جانب اسحق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار کا کہنا تھا کہ ’جو ڈار صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر کسی مفرور کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنا معمول کا عمل ہے، تو وزیر اعظم عمران خان صاحب کئی سال مفرور رہے۔ پرویز مشرف صاحب بھی ایک طویل مدت سے مفرور ہیں، ان کے ساتھ یہ سلوک تو نہیں ہوا!‘

No comments: