انیس سو انہتر میں جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو کئی دن تک سینئر سول افسروں سے ملنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان کی ٹیم از خود عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھی اور اعلیٰ بیوروکریسی کو ان کی خبریں اخبارات کے ذریعے ہی پہنچ رہی تھیں۔ آخر ایک دن کسی نے یاد دلایا تو ساری وزارتوں کے سیکرٹریز اور دیگر سینئر افسر ملاقات کے لیے طلب کر لیے گئے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم اس ملاقات میں بطور وفاقی سیکرٹری شامل تھے۔
ان کے بیان کردہ احوال کے مطابق جنرل یحییٰ خان نے بتایا ”ملک کی معاشی حالت تباہ ہو چکی ہے، گورننس ختم ہو چکی ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ فوری توجہ کے طالب ان قومی امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی وجہ سے وہ افسروں سے ملاقات نہیں کر پائے‘ لیکن اب ملک درست ہاتھوں میں ہے لہٰذا بیوروکریسی دھیان سے اپنا کام کرے، کام چوری چھوڑ دے اور کرپشن سے باز آ جائے‘‘۔ قدرت اللہ شہاب نے موقع ملنے پر سوال کیا کہ جناب مملکت کے کام رکے پڑے ہیں اور افسروں کے پاس واضح ہدایات نہیں ہیں۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ جنرل یحییٰ خان کے حواری ان پر چڑھ دوڑے۔ ایک بولا، لو یہ کیا بات ہوئی، کیا کام رکے ہیں، کام تو ہو رہے ہیں۔ دوسرا بولا‘ آپ اپنی بات کریں۔ تیسرے نے کچھ اور انداز میں انہیں گستاخ قرار دیا۔
جب یہ طوفان تھما تو قدرت اللہ شہاب دوبارہ گویا ہوئے کہ میری مراد ضروری کاموں سے تھی۔ اب کی بار کوئی اور ٹپک پڑا اور بولا، ”نظر نہیں آ رہا‘ گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگوائی جا رہی ہیں، صفائی کا انتظام ٹھیک کیا جا رہا ہے، کیا یہ ضروری کام نہیں؟‘‘ اس پر شہاب بولے، ”یہ کام تو ضروری ہیں لیکن ان کے لیے مارشل لاء ضروری نہیں‘‘۔ ظاہر ہے اس فقرے کے بعد قدرت اللہ شہاب کو نوکری چھوڑنا پڑی۔ یحییٰ خان نے اپنے خوشامدی ٹولے کے ساتھ مل کر جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
یہ واقعہ ہمیشہ اس وقت یاد آتا ہے جب حکمران کبھی بس اڈوں پر مسافروں کے لیے پناہ گاہیں بنانے پر جھومر ڈالتے ہیں‘ اور کبھی کسی لنگر خانے کے افتتاح پر لُڈی ڈالنے لگتے ہیں۔ ان موقع پر وزیر اعظم خود پر فلسفہ طاری کر کے تصوّف کی سمجھ میں نہ آنے والی گفتگو فرماتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ساری کابینہ دھمال ڈالتی ہوئی اسلام آباد کے ڈی چوک پر آ نکلے گی۔ پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کی طرح کا ہی ایک اور منصوبہ احساس پروگرام ہے جس کے دم پر پوری حکومت خود کو غریب کا ہمدرد ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد بھی غریب آدمی کو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں مدد دینا ہے لیکن یہ بھی ابھی تک حکومت کے دیگر منصوبوں کی طرح ‘گا گے گی‘ سے آگے نہیں بڑھا۔ مگر جب بھی اس پروگرام کے کسی حصے کا ذکر آتا ہے تو وزیر اعظم خلا میں دیکھتے ہوئے اپنے وہ دن یاد کرتے ہیں جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے انہیں روپیہ روپیہ اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔ پھر حاضرین کو مخاطب کرکے احساس پروگرام کے بارے میں آدھی ادھوری سی بات کرکے اپنی حکومت کے ارادے بتاتے ہیں تو سامنے بیٹھے تمام لوگ واہ واہ پکارتے گھر چلے جاتے ہیں۔
پناہ گاہیں، لنگرخانے یا اس طرح کی چیزیں قطعاً بری نہیں بلکہ ضروری ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کاموں کے لیے حکومت ضروری نہیں۔ وزیراعظم کا کام خیراتی انداز کے اداروں کو چلانا نہیں ہوتا بلکہ ریاست و معیشت کو مؤثر انداز میں چلانا ہے۔ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جس میں ہر شخص باعزت انداز میں روزگار کما سکے نہ کہ اہل خیر یا حکومت سے گداگروں کی طرح مانگتا رہے۔ پناہ گاہ، لنگر خانے یا نقد امداد کی کوئی صورت صرف ان ایک دو فیصد لوگوں کے لیے ہو سکتی ہے جو کسی قابل نہیں رہے۔ قوم کی ضرورت صنعت و تجارت ہیں جن کے بارے میں ہمارے وزیراعظم کو کچھ پتا ہے نہ کوئی ایسا شخص ان کے ارد گرد نظر آتا ہے جو معیشت کے بارے میں صحت مند نظریات رکھتا ہو۔
وزیراعظم کی حد تک تو سمجھ آتا ہے کہ ان کی زندگی میں معیشت کے معنی ہی محدود ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کھیل کر کچھ پیسہ کمایا، جمائما بی بی سے پیسے لے کر مکان بنا لیا اور پیسے والوں سے سرمایہ اکٹھا کرکے اپنی والدہ کے نام کا ہسپتال بنا ڈالا۔ ظاہر ہے ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ روزگار کی فراہمی، صنعتی ترقی، زراعت یا معیشت کے دیگر شعبوں کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے ہوں گے۔ ویسے یہ ضروری بھی نہیں کہ وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھنے والا ہر شخص معاشیات کا ماہر ہو‘ لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اسے اپنی معاشی ٹیم اور اہداف مقرر کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں حقیقت پسندانہ تبدیلی بھی اس کا حق ہے اور ظاہر ہے حتمی ذمہ داری کا بوجھ بھی اسے ہی اٹھانا ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ماہرین معاشیات کی جو ٹیم ہے‘ اسے بہی کھاتے ٹھیک کرنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔ ملکی اقتصادیات میں ترقی اور حکومتی اخراجات میں کمی کے درمیان نقطہء توازن کہاں ہے؟ اس کا اسے علم ہی نہیں۔ دنیا بھر کے ملک قرضے بھی لیتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس معاشی ٹیم کی نالائقی کی وجہ سے قرضے اتنا بڑا مسئلہ بن گئے ہیں کہ حکومت کے پاس ملکی ترقی کے لیے کچھ خرچ کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
وزیرخزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنرنے قرضوں کے لیے جو پالیسی بنائی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روپیہ تیس فیصد سے زیادہ گر گیا، برآمدات بڑھ نہیں پا رہیں، قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کارخانے بند ہورہے ہیں، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، بجلی گیس کے بل عام آدمی کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں، سرکاری ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوچکے ہیں اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ان سب مصیبتوں سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ موجودہ معاشی ٹیم اس اقتصادی تباہی کو ‘کڑوی‘ گولی قرار دے کر وزیر اعظم سے اس کی منظوری بھی لیتی رہتی ہے۔ جب بھی وزیر اعظم کی توجہ اس تباہی کی طرف ہوتی ہے تو دساور سے آئے ماہرین معاشیات کی جوڑی نہایت فنکاری سے انہیں حکومت کے خیراتی پروگرام کے بارے میں بتانے لگتی ہے اور بنیادی طور پر ایک سوشل ورکر ہونے کی وجہ سے عمران خان خیرات کو ہی معیشت سمجھنے لگے ہیں۔
سولہ مہینے کی پے در پے معاشی ناکامیوں کے بعد غالباً وزیر اعظم بھی معاشی ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی عام خصوصیت ہے کہ عملی زندگی میں ناکامیوں کے بعد صوفیانہ خیالات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہم اپنے وزیراعظم میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ بھی انہی خیالات کی بنیاد پر سمجھنے لگے ہیں کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے سوائے پناہ گاہ کے بستر، لنگرخانے کی روٹی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تھوڑی سی مالی امداد اور قدرت کی طرف سے آئی بیماری کے مقابلے کے لیے صحت انصاف کارڈ کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔
عمران خان بھول رہے ہیں کہ قوم نے انہیں ملک چلانے کے لیے منتخب کیا ہے، کسی کونسل کا چیئرمین نہیں بنایا۔ انہوں نے خانقاہوں کے لنگر کا انتظام نہیں کرنا۔ انہوں نے دنیا میں پاکستان کو عزت دلوانے کا وعدہ کیا تھا‘ جسے پورا کرنا ہے۔ انہوں نے نوکریوں اور مکانات کا خواب دکھایا تھا‘ جسے حقیقت بنانا ہے۔
انہوں نے صنعتی ترقی کا دعویٰ کیا تھا‘ جسے ثابت کرنا ہے۔ وزیراعظم مایوس نہ ہوں، یہ سب ہو سکتا ہے مگر معاف کیجیے گا یہ کام ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر نہیں کر سکتے۔ اگر ان کی پالیسیاں ہی چلتی رہیں تو پھر ملک میں خیرات لینے والے تو بہت ہوں گے، دینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ وزیراعظم صاحب کو بس یہ سمجھنا ہو گا کہ عوام کو صدقہ نہیں بڑھتی پھولتی معیشت چاہیے۔ عوام کو پناہ گاہ کا بستر نہیں اپنا مکان چاہیے، انہیں امداد کی نہیں نوکری کی ضرورت ہے۔ انہیں آپ کے صوفیانہ افکار سے نہیں آپ کے درست فیصلوں سے مطلب ہے۔
No comments:
Post a Comment