M WAQAR.....
"A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death."
--Albert Einstein !!!
NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.''
تل ده وی پثتونستآن
Sunday, February 16, 2020
وزیراعظم کے نام سوشل میڈیا تنظیم کا خط: ’خدمات جاری رکھنا مشکل‘
فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل سمیت سوشل میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم ’ایشیا انٹرنیٹ کوالیشن‘ نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط میں نئے سوشل میڈیا قواعد پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قواعد کی روشنی میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ اپنی خدمات پاکستانی صارفین اور کاروبار کو مہیا کر سکیں۔
اے آئی سی کی ویب سایٹ پر موجود وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں تنظیم کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک نے اس طرح کے وسیع البنیاد قواعد نہیں بنائے اس لیے خدشہ ہے کہ ان سے پاکستان دنیا بھر میں تنہا نہ ہو جائے اور پاکستانی صارفین اور کاروبار خوامخواہ انٹرنیٹ کی معیشت کے فوائد سے محروم نہ رہ جائیں۔
’دراصل جس طرح کے قواعد بنائے گئے ہیں اس سے اے آئی سی کی ممبر کمپنیوں کے لیے انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ اپنی خدمات پاکستانی صارفین یا کاروباروں اداروں کو فراہم کر سکیں۔‘
اے آئی سی ایک صنعتی تنظیم ہے جو فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، ایمازون، یاہو اور دیگر انٹرنیٹ کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے اور ایشیا بھر میں حکومتوں کے ساتھ ان کمپنیوں کے معاملات پر بات چیت کرتی ہے۔
پاکستانی کی طرف سے گذشتہ ماہ منظور کیے گئے سوشل میڈیا قواعد پر اپنی تفصیلی رائے میں اے آئی سی نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کے مواقع موجود ہیں مگر اس طرح کے قواعد کے بغیر مشاورت اچانک آنے سے حکومت کے ان دعوں کی نفی ہوئی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے دستیاب ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ان قواعد کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
اے آئی سی کا کہنا ہے کہ ان قواعد کو بناتے وقت حکومت سے باہر کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ ’جس طریقے سے یہ قواعد بنائے گئے ہیں اس سے بین الاقوامی کمپنیاں اس امر پر مجبور ہو گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے ریگولیٹری ماحول اور اس ماحول میں کام کرنے کے بارے میں دوبارہ سوچیں۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ قواعد سوشل میڈیا کمپنیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صارفین کی پرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے مروجہ انسانی حقوق کی روایات سے روگردانی کریں اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت مناسب مشاورت کا آغاز کرے تاکہ وسیع البنیاد شرکت سے نئے قواعد بنائے جا سکیں۔
اے آئی سی کے مطابق اسے احساس ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں غیرقانونی اور مسائل پر مبنی آن لائن مواد پر قابو پانے کے حوالے سے حکمت عملی بنا رہی ہیں تاہم اس سلسلے میں زیادہ تر مقامات پر طویل اور ثبوتوں پر مبنی تحقیق اور مشاورت کے ساتھ کسی حل کی طرف جایا جا رہا ہے نہ کہ بیک جنبش قلم یک طرفہ قواعد کا راستہ اپنایا جائے۔
برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے اے آئی سی کے خط میں کہا گیا ہے کہ وہاں آن لائن نقصان کا وائیٹ پیپر سال پہلے جاری ہوا پھر حکومت نے بارہ فروری کو اپنا جواب جاری کیا جس میں کافی وضاحت کے ساتھ حکومت نے اعادہ کیا کہ وہ انسانی حقوق خاص طور پر اظہار رائے کا احترام کرتی ہے اور شفافیت اور کاروبار یقینی بنانے کے عزم کو دہرایا گیا۔
برطانیہ نے جلد بازی میں قانون سازی کے بجائے ابھی بھی مزید مشاورت اور سٹیڈیز جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور ویسے بھی آن لائن محاذ پر برطانوی کوششیں زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی اور نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام تک محدود ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ نئے قواعد پاکستان کے اپنے قوانین پیکا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان دونوں قوانین میں اس طرح کے اختیارات نہیں دیے گئے بلکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو تحفظ دیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment