ایک عام باپ، کے لیے بہت بڑی بات ہوتی ہے جب دنیا اس کی بیٹی کو مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھے، مگر ضیاالدین یوسفزئی، عام والد نہیں۔ وہ ملالہ یوسفزئی کے والد ہیں۔
’جب میں یہ باتیں سنتا ہوں کہ ملالہ پاکستان کی آنے والی وزیر اعظم ہے تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس بات پر کیا تبصرہ کروں۔ میری بیٹی کے لیے سب سے اہم اس کا مشن ہے کہ وہ کس طرح انسانیت کی خدمت کرسکتی ہے۔‘
ضیاالدین یوسفزئی کہتے ہیں کہ ہر باپ کی طرح مجھے بھی بہت خوشی ہوگی کہ وہ اپنے ملک کی سربراہی کرے۔ مگر مجھے علم ہے کہ وزیر اعظم بننا، میری بیٹی کا نصب العین نہیں۔ وہ اپنی قابلیت اور بہادری سے، بنی نوع انسانیت اور اپنے وطن کی خدمت کرے گی۔ اس کے لیے اعلیٰ رتبہ کوئی ضروری نہیں۔ اچھی نیت ضروری ہے۔‘
مگر ضیاالدین کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہو وہ ہر دم اپنی بیٹی کے ساتھ ہیں اور اس کے ہر فیصلے کو اپنا فیصلہ سمجھیں گے۔
حالیہ دنوں میں اپنی کتاب کی رونمائی ”LET HER FLY” کے سلسلے میں ضیاالدین دبئی آئے ہوئے تھے۔ ایک خصوصی ملاقات میں انہوں نے اپنی کتاب کے بارے میں بتایا کہ ’LET HER FLY‘ ان کی 20 سالہ جدوجہد کی کہانی ہے جو انھوں نے بطور ماہر تعلیم، بطور والد، شوہر، بھائی اور بیٹے کے طور پر نباہی ہے، خاص طور پر کمسن ترین نوبل پرائز ونر بیٹی کا والد ہونے کی ذمہ داری۔
’جب ملالہ بڑی ہو رہی تھی، اور مجھے دیکھ رہی تھی کہ کس طرح میں تعلیم کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ میں اس کا ہیرو تھا۔ مگر آج میری بیٹی، میری بھی ہیرو ہے۔ وہ صرف میری نہیں، بلکہ پوری دنیا کی ہیرو ہے۔ ملالہ صرف میری ہی نہیں،ان لاکھوں بچیوں کی آواز ہے جن کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔‘
ملالہ کی تربیت میں ضیاالدین کی بہت جھلک نظر آتی ہے۔ اُن کی تمام عمر، بچوں کی تعلیم خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کے لیے گزری ہے۔ آج وہ ، ملالہ فنڈ کی اہم ذمہ داری سمبنھال رہے ہیں۔
ضیاالدین وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتے جب اُن کی بیٹی موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ ’میری حالت اس بےچین باپ کی سی تھی جس کا جگر کا ٹکرا، آنکھوں کے سامنے تکلیف میں ہو اور آپ کچھ نہی کرسکتے۔‘
ضیاالدین کہتے ہیں کہ وہ ان سب کے بہت احسان مند ہیں جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔ ’میں اس وقت ذہنی حالت میں نہیں تھا کہ کوئی فیصلہ کر پاتا۔ میں احسان مند ہوں کہ جنہوں نے مجھے اور میرے خاندان کو سہارا دیا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ملک سے جانے کا فیصلہ، ان کا اپنا نہیں بلکہ ڈاکٹروں اور ملک کے ذمہ داران کا تھا۔
’وہ پاکستان میں رہ کر زندہ تو بچ جاتی مگر اس صحتمند حالت میں نہیں ہوتی جس میں وہ آج ہے۔ ملالہ کو بہت سارے آپریشنز سے گزرنا پڑا جو بیرون ملک ہی ممکن تھا۔ میں شکر گزار ہوں ان سب لوگوں کا جنہوں نے ہمارے لیے ان سخت حالات میں فیصلے کیے۔‘
No comments:
Post a Comment