محمد حنیف
پرانے زمانے کے بادشاہوں کے دربار میں سپہ سالار ہوتے تھے۔ خزانے کا حساب کرنے والے، ہمسایہ
ریاستوں کی سرکوبی کے لیے سفارتکار۔ نئی بستیاں بسانے کے ماہر، بادشاہ کے حرم کی آبادی کا حساب کرنے والے، شکار کا بندوبست کرنے والے، ہر طرح کے ماہرین ہوتے تھے۔
ریاستوں کی سرکوبی کے لیے سفارتکار۔ نئی بستیاں بسانے کے ماہر، بادشاہ کے حرم کی آبادی کا حساب کرنے والے، شکار کا بندوبست کرنے والے، ہر طرح کے ماہرین ہوتے تھے۔
لیکن ہر کامیاب بادشاہ کے دربار میں ایک درباری ایسا بھی ہوتا تھا جس کا کام بادشاہ کو ہنسانا ہوتا تھا۔ انگریزی میں اسے فول کہتے تھے، آپ اسے مسخرا کہہ لیں، مذاقیا کہہ لیں۔
دربار میں اس کی ضرورت اس لیے ہوتی تھی کہ جب سلطنت کے معاملات گمبھیر ہو جائیں تو کوئی شگفتہ بات کہہ کر ماحول کے تناؤ کو بھول جائیں۔ دشمن کی طرف سے ہونے والی یلغار کو کچھ عرصے کے لیے بھول جائیں، حرم میں جاری خانہ جنگی سے کچھ عرصے کے لیے توجہ ہٹ جائے۔
عمران خان نے حکومت کے اس دقیانوسی ماڈل کو اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔ عمران خان نے جدید حکمرانی کا راز پا لیا ہے۔
عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں، انٹرٹینمنٹ انٹرٹینمنٹ اور صرف انٹرٹینمنٹ!
اس کی وجہ بھی ہے کہ آٹے، دال، پیٹرول کا بھاؤ فری مارکیٹ طے کرے گی۔ معیشت آئی ایم ایف سنبھالے گی۔ خارجہ پالیسی پہلے سے ہی باجوہ صاحب کے حوالے ہے۔ باغیوں کی سرکوبی سر غفور سارا دن ٹوئٹر پر کرتے ہیں اور کرواتے ہیں۔ تو باقی حکومت کے پاس بچا کیا کرنے کو؟ تو حکومت نے وہ کام ڈھونڈ لیا ہے اور عوام کو صبح شام انٹرٹینمنٹ فراہم کی جارہی ہے۔
اور جیسا کہ عمران خان خود کہا کرتے تھے کہ میرے سے بہتر ٹیم کوئی نہیں بنا سکتا۔ تو اپنی ٹیم میں انھوں نے ایسا ایسا ہیرا ڈالا ہے اور جو اپنی جماعت میں نہیں ملا تو دشمنوں کی صفوں سے اچک لیا اور یہ ٹیم صبح دوپہر شام ٹی وی پر، ٹوئٹر پر اور واٹس ایپ گروپوں میں ہمیں انٹرٹین کرنے میں مصروف ہے۔
ٹیم میں ٹیلنٹ کی فراوانی دیکھ کر لاہور کے تھیٹر کے وہ ڈرامے یاد آ جاتے ہیں جب ایک ہی سین میں اتنے اداکار ہوتے تھے کہ جگت لگانے کی باری نہیں آتی تھی اور کبھی کبھی ہاتھا پائی ہو جاتی تھی۔
ٹیم کے سردار فواد چوہدری ہیں جنھوں نے کچھ مہینے پہلے ہی عاطف میاں کی اپائنٹمنٹ پر بڑے دبنگ لہجے میں کہا تھا کہ 'کیا ہم پاکستان کی ساری اقلیتوں کو دریا میں پھینک دیں؟' اگلے ہی دن خیال آیا کہ دریا میں پھینکنے والا آئیڈیا کوئی اتنا برا بھی نہیں ہے۔
بعد میں انھیں ان کی وزارت سے نکال کر کسی لیبارٹری میں پھینک دیا گیا جہاں پر چاند ڈھونڈنے کی سائنس نے ہم گناہ گاروں کے روزے کٹوا دیے۔ پھر فرمانے لگے کہ کچھ کام فوج کے کرنے کے نہیں ہیں۔ اس جگت پر کوئی نہیں ہنسا بلکہ بڑے بڑے اینکر اپنے سیٹ پر لگی رنگین میزوں کے نیچے چھپ گئے۔
پھر فواد چوہدری صاحب نے کہا کہ حکومت میں غیر منتخب اور منتخب لوگوں میں کوئی تناؤ ہے۔ اس پر لندن سے آئے زلفی بخاری صاحب بولے کہ یہ لوگ تو کونسلر منتخب نہیں ہو سکتے۔ زلفی بخاری صاحب شاید لندن کے کسی کلب کے خزانچی منتخب ہوئے ہوں ورنہ مہنگے کپڑے پہننے کے علاوہ تو میں نے ان میں کوئی ہنر نہیں دیکھا۔
فردوس عاشق اعوان ہیں جو کسی صحافی کی آبرو بچانے کے لیے جذباتی ہو جاتی ہیں۔ ویسے وہ حکومت اور پارٹی میں اتنی نئی نئی آئی ہیں کہ مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کسی دن جذبات میں آ کر وہ 'جئے بھٹو' کا نعرہ نہ لگا دیں۔
محمد علی صاحب ہیں جو اپنے پشتون بھائیوں کو غدار کہتے ہیں، پھر کسی سعودی شہزادے کو عرضی بھیجتے ہیں کہ محلے کی گلیوں کی مرمت کروانی ہے چندہ دے دیں۔ مراد سعید ہیں جو اتنے ارب کھرب گنواتے ہیں کہ کیلکولیٹر کے صفر ختم ہو جاتے ہیں۔
ہر ہٹ فلم میں ایک آئٹم نمبر ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت وہ فلم ہے جس میں سب پرانی شرطیہ ہٹ فلموں کے آئٹم نمبر اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔ سکرپٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ پتا نہیں کیوں خواہ مخوا سکرپٹ لکھنے والوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔
ہمیں دن رات انٹرٹین کرنے والے یہ سب فنکار رمضان کے آخری عشرے میں مکے مدینے میں اکٹھے ہو کر سیلفیاں بناتے ہیں اور اپنی فلم کی کامیابی کے لیے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں۔
ہم بھی ان کا شکر بجا لاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment