ہر شخص کی موت قابل افسوس ہوتی ہے لیکن نوجوانی میں موت کئی چاہنے والوں کو گہرا غم دے جاتی ہے۔
ایسا ہی واقعہ جمعے کی سہ پہر پنجاب کے ضلع گجرات کے شہر لالہ موسیٰ میں جی ٹی روڑ پر لوکل گورنمنٹ اکیڈمی کے سامنے پیش آیا۔
عینی شاہدین کے مطابق کھاریاں کی جانب سے آنے والی تیز رفتار سفید گاڑی ایک موٹر سائیکل سوار کو بچاتے ہوئے بےقابو ہو کر درخت سےجا ٹکرائی۔
آس پاس موجود لوگوں نے بھاگ کر گاڑی کے پاس جا کر دیکھا تو اس کا ڈرائیور 19سالہ اسامہ قمر کائرہ اور ان کا دوست حمزہ بٹ شدید زخمی تھے۔
شہریوں نے اسامہ کو گاڑی سے باہر نکالا تو وہ دم توڑ چکے تھے جبکہ حمزہ کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ بھی جان بر نہ ہو سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور اسامہ کے والد قمر زمان کائرہ کو اسلام آباد میں، جب وہ پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے، حادثے کی اطلاع دی گئی۔
کائرہ پریس کانفرنس ختم کر کے فوراً لالہ موسیٰ روانہ ہوگئے۔ ان کے پہنچنے سے پہلےمرنے والے دونوں نوجوانوں کی لاشیں گھر پہنچا دی گئی تھیں۔
قمر زمان کائرہ کے پرسنل سیکرٹری محمد نعیم کے مطابق جب وہ لالہ موسیٰ کائرہ خاندان کے ڈیرے پر پہنچے تو وہاں عزیز واقارب، پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کا تانتا بندھ چکا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور دونوں دوستوں کی میتیں ایک ساتھ ڈیرے پر موجود تھیں۔
ہفتے کو نماز جنازہ کے بعد لالہ موسیٰ میں تدفین کر دی گئی۔
اسامہ قمر کون تھے؟
اسامہ کے قریبی دوست فیصل عدیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسامہ گورنمنٹ کالج میں سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے۔ انہیں دوستوں کے ساتھ رہنا بہت اچھا لگتا تھا، وہ کھانا بھی اکیلے نہیں کھاتے تھے۔
فیصل نے بتایا کہ ان کی کالج میں ایک ایسی ویڈیو بھی موجود ہے جس میں وہ دوستوں کو پیزا کھلانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا سادہ لباس پہننے کے عادی اسامہ سنجیدہ اور خوش گفتار تھے اور ایسا لگتا تھا وہ ہر کام جلدی سے نمٹانا چاہتے تھے۔
ان کے رویے سے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ ایک بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔
قمر زمان کائرہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ان کے تین بچے تھے۔ ایک بڑی بیٹی شادی شدہ ہیں، دوسرا بیٹا حمزہ قمر پنجاب یونیورسٹی میں آخری سمسٹر کا طالب علم ہے جبکہ اسامہ قمر اور ان کی ایک بہن جڑواں تھے۔ بچی پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئی تھی۔
انہوں نے بتایا اسامہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے پورے خاندان کے لاڈلے تھے، لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اتنا لاڈلا ہونے کے باوجود وہ انتہائی عاجز تھے۔
کائرہ کے مطابق، اسامہ ان کے، والدہ اور دادی کے پاؤں دباتے تھے، انہیں اگر چائے کا کہا جاتا تو والدہ یا کسی ملازم کو کہنے کی بجائے خود بنا کر لاتے۔
انہوں نے غم زدہ لہجے میں بتایا اسامہ ایک سمجھ دار اور احساس کرنے والے بیٹے تھے۔ وہ ایک بار سمجھانے پر غلطی دہراتے نہیں تھے۔
کائرہ نے حیرت ظاہر کی کہ اسامہ نے گاڑی کی رفتار تیز کیسے کی؟ جبکہ وہ ہمیشہ اچھی طرح گاڑی چلاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اسامہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور ڈاکٹر بننا چاہتا تھے۔
انہوں نے بھری آواز میں کہا وہ ہر کام میں گھر والوں کو اعتماد میں لیتے تھے لیکن آخری سفر پر جاتے ہوئے ہمیں بتا کر نہیں گئے۔
No comments:
Post a Comment