عبداللہ جان
معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت کو سٹیٹ بینک کی سرپرستی سے آزاد رکھنے کی شرط پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان گذشتہ دنوں چھ ارب ڈالرز کے ایک قرضے پر اتفاق ہوا جو اسلام آباد کو درپیش وقتی مالی مشکلات سے اگلے تین برس میں مدد دے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کو یہ قرضہ لوٹاتے وقت کتنی رقم ادا کرنا ہوگی؟
اقتصادی ماہرین کے مطابق اس بات کا انحصار پاکستانی معیشت کے کئی پہلوؤں پر ہوگا لیکن اس کا سب سے زیادہ تعلق امریکی ڈالر کی قدر پر بھی ہو گا۔ ایک عام آدمی کی زبان میں اسے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں آئندہ تین سالوں میں ڈالر کی قیمت میں جس قدر اضافہ ہوگا پاکستان کو اسی حساب سے آئی ایم ایف کو قرضے کی رقم اور سود واپس کرنا پڑے گا، جو یقینا تین سال بعد پاکستان کو آج ملنے والی رقم سے بہت زیادہ ہوگا۔
اتوار کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خبر آنے کے اگلے ہی روز پاکستان میں ڈالر کی قیمت 145روپے سے بڑھ کر 146روپے ہوگئی اور اس وقت 150 کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ گذشتہ ایک برس کے دوران ڈالر کی قیمت میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اگر ادائیگی کے وقت ڈالر کی قیمت 200 روپے فی ڈالر ہوئی تو پاکستان کو چھ کے بجائے آٹھ ارب ڈالرز لوٹانے پڑیں گے۔ ’اسی طرح بدقسمتی سے اگر ڈالر کی قیمت 300 روپے تک پہنچ گئی تو پاکستان کو 12 ارب ڈالرز دینا ہوں گے، جبکہ تین سے چار فیصد کے حساب سے سود کی رقم اس کے علاوہ ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ڈالر پاکستانی معیشت پر اثرانداز ہوتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ ہم درآمدات پر ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ اس لیے ڈالر کی قیمت میں کمی یا زیادتی سے پاکستان میں اشیا کے نرخوں پر فرق پڑتا ہے۔
مفتاح اسماعیل کے مطابق اگر قرض کی ادائیگی کے وقت ڈالر مہنگا ہو گا تو وہ ڈالر حاصل کرنے میں ہماری معیشت زیادہ اثر انداز ہو گی۔
حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کی تمام تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں لہذا معلوم نہیں کہ پاکستان کو اس قرضے کی ادائیگی کب سے، کتنے عرصے میں اور کس شرح سود پر کرنا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ درست اندازہ لگانا مشکل ہے کہ پاکستان کو کتنی رقم ادا کرنا ہو گی۔
معاہدے کی شرائط کے تحت پاکستان پر پابندی لگائی گئی ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین سٹیٹ بینک نہیں بلکہ مارکیٹ خود طے کرے گی۔
معاشی ماہرین نے ڈالر کی قیمت کو سٹیٹ بینک کی سرپرستی سے آزاد کرنے کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا اس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ڈالر کو پوری طرح آزاد نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ اس کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ایک ارب ڈالرز خرچ کرے گی اور آئی ایم ایف سے اس بات کی اجازت لے لی گئی ہے۔
معاہدے کی شرائط کے اثرات پر بات کرتے ہوئے اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت کو یوں آزاد چھوڑنا ایک تباہ کن قدم ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ قرضوں کی ادائیگی تک ڈالر کی قیمت میں بہت اضافہ ہو جائے گا اور اُس وقت اس قیمت کے حساب سے ادائیگی کرنا پڑے گی جو بہت زیادہ ہو گی۔
تاہم بعض معاشی ماہرین اس تھیوری سے اختلاف رکھتے ہیں کہ پاکستان کو ڈالر کی قیمت زیادہ ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف کو زیادہ ادائیگی کرنا ہو گی۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈالر روپوں میں نہیں خریدا جا سکتا۔ اس لیے لوکل مارکیٹ میں اس کی قیمت کا زیادہ یا کم ہونا آئی ایم ایف کو کی جانے والی ادائیگی پر اثر انداز ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اقتصادی سرگرمی آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت کا تعین کرے گی۔
ذیشان حیدر کے مطابق برآمدات بڑھا کر اور درآمدات میں کمی لاکر ڈالر کی قیمت کو ایک خاص حد کے اندر رکھا جا سکے گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بھی اتفاق کیا کہ تجارتی خسارہ کم کر کے ڈالر کی قیمت میں استحکام لایا جا سکتا ہے۔ ’پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ چینلج بڑا ہے لیکن یہ تو کرنا پڑے گا، تبھی ادارے اور معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے۔‘
ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر کو قابو میں رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ برآمدات اور بیرون ملک سے آنے والی ریمیٹنس بڑھائی جائیں۔
آئی ایم ایف کی مصری مثال
نسٹ کے ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تکلیف دہ اور پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ ان کے مطابق آئی ایم ایف نے اسی طرح کی شرائط مصر پر بھی لگائیں جس کے بہت خراب نتائج سامنے آئے۔’آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے وقت مصر میں 35فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے اور ایک ہی سال میں یہ تعداد 55 فیصد ہو گئی۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے سوال اٹھایا کہ دوائی ایک ہی ہو تو اس کا اثر کیسے بدل سکتا ہے؟
مالیاتی امورسے متعلق پاکستانی اخبار روزنامہ بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں مصر میں افراط زر صرف نو ماہ میں 13.6سے بڑھ کر 21.9 فیصد ہوگئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا:’مصر اور پاکستان کے معاشی حالات بالکل مختلف ہیں اور پاکستانی معیشت کے لیے آئی ایم ایف کے مصری ماڈل سے استفادہ کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔‘
کیا آئی ایم ایف سیاسی ادارہ ہے؟
ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ بنتا جا رہا ہے جوغریب ممالک کی مالی امداد سے زیادہ بڑی طاقتوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق شرط پر زیادہ تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سابق وفاقی وزیرمفتاح اسماعیل نے کہا:’ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کو ایف اے ٹی ایف سے نتھی کیا گیا ہو۔‘
اشفاق حسن خان نے کہا معاہدے کی شرائط سے لگتا ہے کہ یہ’ کوئی بین الاقوامی سازش ہے جس کے ذریعے پاکستان کو پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
صحافی ذیشان حیدر کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں، لہذا اس کا عکس آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں بھی واضح نظر آتا ہے۔
No comments:
Post a Comment