پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے گذشتہ ہفتے جب وزارت سے سبکدوشی کا اعلان کیا تو تمام
لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا کہ اس مشکل وقت میں کابینہ کے اس سب سے اہم رکن کے طور پر وزیراعظم پاکستان کا انتخاب کون ہو گا۔
ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے قیاس آرائیاں اسد عمر کی ٹویٹ کے بعد سے شروع ہو گئی تھیں اور کبھی عمر ایوب کو یہ عہدہ دیے جانے کی خبریں گردش کرتی رہیں تو کبھی شوکت ترین کی جانب سے یہ عہدہ سنبھالنے سے انکار کی باتیں ہوئیں۔
لیکن ان سب ناموں کے برعکس قرعۂ فال عبدالحفیظ شیخ کے نام نکلا اور وہ وزیراعظم کے مشیر برائے مالیاتی امور بنا دیے گئے۔ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے گذشتہ دورِ حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ تھے جبکہ اس سے قبل مشرف دور میں سندھ کے وزیر خزانہ اور بعد میں نجکاری کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
حفیظ شیخ کس کا انتخاب؟
حفیظ شیخ کی تعیناتی کے ساتھ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس بحث کا آغاز بھی ہو گیا ہے کہ اس اہم عہدے کے لیے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیوں کیا گیا جو عوامی ووٹ سے منتخب ہو کر نہیں آئی اور آیا وہ وزیراعظم عمران خان کا انتخاب ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالیاتی امور پر نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ نواز کے سوا پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ ایک بڑا مسئلہ پایا جاتا ہے کہ ان کے پاس صف اول کے معاشی ماہرین نہیں ہوتے۔‘
ان کے مطابق ’اسی کمزوری کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں کو بھی ’بریف کیس‘ وزیر خزانہ کی طرف دیکھنا پڑا اور اس دفعہ پھر وہی ہوا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ نئے مشیرِ خزانہ کے نام کا انتخاب وزیر اعظم عمران خان کا نہیں تھا اور خیال یہی ہے کہ ’حفیظ شیخ وزیراعظم سے زیادہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی پسند تھے۔‘
سینیئر صحافی محمد ضیا الدین بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ حفیظ شیخ عمران خان کا نہیں بلکہ ’کسی اور‘ کا انتخاب ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ دور دور تک عمران خان کے ریڈار پر نہیں تھے‘ اور ان کے خیال میں ان کے آپس میں کسی قسم کے تعلقات بھی نہیں رہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار ندیم ملک کا بھی کہنا ہے کہ ’جب معیشت پر مشکل وقت آتا ہے تو پاکستان سے باہر ایسے پاکستانیوں سے مدد مانگی جاتی ہے جو کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے یا کسی بڑے بینک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے کافی تحفظات تھے جس کو دیکھتے ہوئے حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنایا گیا کہ وہ بگڑے ہوئے معاملات کو بہتر کر سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ سات، آٹھ ماہ میں کافی بدانتظامی ہوئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ حفیظ شیخ صاحب کا نام کسی دوسرے کونے سے آیا ہو۔‘
ماضی کی کار کردگی
حفیظ شیخ کی ماضی کی کارکردگی کی بات کی جائے تو تجزیہ نگار انھیں کمزور قوتِ فیصلہ کا مالک قرار دیتے ہیں۔
شہباز رانا کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ صاحب کی وزارت کے دوران ان کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ وہ ایسے معاملات پر فیصلے کرنے میں احتیاط اور کچھ معاملات میں تاخیر سے کام لیتے ہیں جن پر فوری فیصلے چاہیے ہوتے ہیں۔
ندیم ملک کا کہنا تھا کہ بطور وزیر خزانہ ان کی قوت فیصلہ کمزور تھی جس کی وجہ سے معاملات بگڑ گئے تھے۔
ایم ضیا الدین کے مطابق ’بطور وزیرِ نجکاری ان کی سب سے بڑی ناکامی اتیصلات کی پی ٹی سی ایل کے ساتھ ڈیل تھی جس کے مطابق اتیصلات نے ہمیں آٹھ سو ملین ڈالر دینے تھے۔ ابھی بھی ہم اس کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ دیتے نہیں ہیں۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حفیظ شیخ چونکہ مختلف وزارتوں پر رہے ہیں اس لیے اسد عمر کے مقابلے میں انھیں زیادہ بہتر پتا ہے کہ نظام کس طرح چلتا ہے اور بیوروکریسی سے کام کس طرح کروانا ہے۔
تجربہ اور سیاسی حمایت
پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حفیظ شیخ کے بارے میں کہا کہ وہ ماہر معاشیات ہیں اور انھیں اس کام کا تجربہ بھی ہے لیکن انھیں بہت برے حالات میں یہ ذمہ داری دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’حفیظ شیخ کو اس معیشت کو بحال کرنے کا ایک مشکل کام دیا گیا ہے جسے اسد عمر نے بریک لگا دی۔‘
شہباز رانا کے نزدیک مشیر خزانہ سیاسی طور پر کمزور ہیں جو کہ حکومت کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیرِ خزانہ کے لیے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرے تاکہ آئی ایم ایف کی طرف سے دیے گئے مشکل معاشی فیصلوں پر عمل درآمد ہو سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ حفیظ شیخ کو ’ابھی پارٹی کا مفلر بھی نہیں پہنایا گیا اور بغیر پارٹی کی شمولیت کے انھیں مشیر بنا دیا گیا ہے، ان کے لیے کافی مشکل حالات ہوں گے۔‘
معاشی حالات کا مستقبل
پاکستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے چار بڑے مسئلے ہیں جن پر حکومت کی فوری توجہ درکار ہے اور وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، درآمدات کی زیاتی، برآمدات میں کمی اور محصولات کم اور خرچ زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سے ایک مہینے پہلے وزارت خزانہ میں ایسی تبدیلی حکومت کے حالات کے بارے میں مثبت عندیہ نہیں دیتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر بنیادی پالیسی یہی رہی جو پچھلی دو، تین دہائیوں سے رہی ہے تو خدشہ ہے کہ ڈالر دو سو روپے کا ہو جائے گا اور افراط زر 20 فیصد کے قریب ہو سکتا ہے چلا جائے۔‘
ماہر معاشیات اکبر زیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معیشت کا حال اچھا نہیں ہے مگر منصب پر کون بیٹھا ہے اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔
’وہ کس طرح کیا بات کر رہا ہے اور کس طرف لے کر جا رہا ہے اس کی بہت اہمیت ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ حفیظ شیخ کچھ کر پائیں گے۔ میرے خیال سے پاکستان میں اس وقت ایسے لوگ ہیں جو ان سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں اور اُن کا ماضی کا ریکارڈ بھی اتنا برا نہیں ہے۔‘
تاہم ندیم ملک کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کے اصلی دو بڑے امتحان بجٹ اور آئی ایم ایف کا معاہدہ ہے اور اگر وہ ان میں کامیاب ہو گئے تو ان کے لیے راستے کھل جائیں گے ورنہ مزید بند ہو جائیں گے۔
اس سلسلے میں شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ’شاید وہ (حفیظ شیخ) واشنگٹن میں اپنے تعلقات کو مثبت طریقے سے استعمال کر کے پاکستان کے لیے کچھ مراعات حاصل کر سکیں لیکن (آئی ایم ایف کے) پروگرام کے خدوخال جو سامنے ابھی تک آ رہے ہیں وہ اتنے شاندار نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ان خدوخال کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والا وقت حکومت کے لیے بھی اور مشیر خزانہ صاحب کے لیے بھی بہت چیلنجنگ ہو گا۔‘
No comments:
Post a Comment