پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سال 2018 کے عام انتخابات کے بعد عمران خان کی قیادت میں برسراقتدار آئی تو اس کا دعویٰ تھا کہ یہ ایک محدود کابینہ کے ساتھ موثر طرز حکمرانی متعارف کروا کے عوام کو معاشی آسودگی اور بہتر معیار زندگی فراہم کرے گی۔
مگر ابھی حکومت کو پہلا سال بھی مکمل نہیں ہوا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث حکومت کی کارکردگی تنقید کے کٹہرے میں آنے لگی۔ منتخب حکومتیں ایسی تنقید زیادہ دیر برداشت نہیں کرتیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ اچانک نہیں تھی۔ کھچڑی تو کئی دن سے پک رہی تھی مگر کہانی ایک خبری ’لیک‘ کی صورت میں 15 اپریل کو مختلف ٹیلی ویژن چینلز پرمنظر عام پر آئی اور بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ میں وزیر خزانہ اسد عمر سمیت اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ مگر شام کو حکومتی ترجمانوں نے تبدیلی کی اس خبر کی تردیدیں جاری کر دیں اور پیمرا نے متعلقہ ٹی وی چینلز کے خلاف یہ غلط خبریں نشر کرنے کا نوٹس بھی لے لیا۔
دو روز تک خاموشی رہی مگر تیسرے روز تبدیلی کی پہلی خبر اسد عمر نے پارلیمان ہاؤس میں صحافیوں سے شیئر کی۔ وہ قومی اسمبلی کی توانائی کمیٹی اجلاس کی صدارت کرنے وزیراعظم سیکریٹریٹ سے وہاں پہنچے تھے۔ صحافیوں کو دیکھتے ہی بول اٹھے کہ وزیراعظم نے انھیں وزارت پیڑولیم کی پیشکش کی ہے مگر انھوں نے انکار کر دیا ہے۔
تھوڑی دیر میں وزیراعظم سیکریٹریٹ سے صحافیوں کو فون پر اطلاعات موصول ہونا شروع ہو گئیں کہ کابینہ میں تبدیلی صرف اسد عمر تک محدود نہیں ہے۔ دراصل حکومت اسد عمر کی جانب سے غیر متوقع طور پر پیٹرولیم کی وزارت قبول نہ کرنے کے ردعمل سے پیدا ہونے والے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں تھی۔ حیران کن طور پر وزرا کے قلمدانوں کی تبدیلی اورتین نئے خصوصی معاونین بھی تعینات کیے گئے۔
ان تبدیلیوں میں اہم ترین اسد عمر کی جگہ وزارت خزانہ میں عبدالحفیظ شیخ کو لانا، وزیر پارلیمانی امور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان دینا، فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات سے سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان دینا اور غلام سرور خان کو وزارت پیڑولیم سے ایوی ایشن کی وزارت میں تعینات کرنا شامل تھا مگر کابینہ میں ان اندرونی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تین غیر منتخب شخصیات فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر ندیم بابر اور ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو معاون خصوصی برائے وزیراعظم بھی تعینات کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان کا بنیادی نعرہ تبدیلی تھا۔ اس نعرے کے ساتھ حکومت کے وجود میں آنے سے اب تک آٹھ ماہ کے اندر تحریک انصاف کی حکومت کو مرکز میں دو وزرا یعنی اعظم خان سواتی اور بابر اعوان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اعظم سواتی کو اسلام آباد میں زمین کے قبضے اور اپنے پڑوس میں ایک غریب خاندان کو جیل بھیجنے کے سکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث وزارت چھوڑنی پڑی تو بابر اعوان کو نیب میں نندی پور ریفرنس میں ملزم نامزد ہونے کے باعث وزیراعظم کے معاون خصوصی کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
اسی طرح پنجاب میں صوبائی وزیر علیم خان بھی نیب کیس میں گرفتاری کے باعث وزارت سے فارغ ہوئے جبکہ فیاض الحسن چوہان اپنے متنازع بیانات کے باعث گھر بھیجے گئے۔ یعنی آٹھ ماہ کے دورانیے میں پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے فریم میں فکس نہ ہونے والے اپنے چار وزرا سے ہاتھ دھونا پڑا۔
18 اپریل کو اسد عمر تحریک انصاف کے پانچویں وزیر تھے جنھیں بظاہر معاشی مسائل حل نہ کرنے کے باعث گھر جانا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان انھیں وزیر کے عہدے پر بہرحال برقرار رکھنا چاہتے تھے مگر اسد عمر نے وزارت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔
حالیہ سالوں میں اسد عمر، نوید قمر کے بعد قومی اسمبلی میں براہ راست منتخب ہو کر وزیر خزانہ بننے والے دوسرے شخص تھے۔ نوید قمر کو پیپلزپارٹی کے آخری دور میں وزیر خزانہ تعینات کیا گیا تھا مگر پانچ ماہ بعد انھیں بھی وزارت خزانہ سے ہٹا کر وزارت پیڑولیم میں لگا دیا گیا تھا۔ اسد عمر نوید قمر سے محض تین ماہ زیادہ وزارت خزانہ کے قلمدان کے حامل رہے۔
اسد عمر کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو بطور مشیر خزانہ وفاقی وزیر کا عہدہ دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ عبدالحفیظ شیخ ایک ٹیکنو کریٹ ہیں جو بالترتیب سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور پھر پیپلز پارٹی کے ادوار میں سرمایہ کاری کے وزیر رہ چکے ہیں۔
تادم تحریر عبدالحفیظ شیخ کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن تو جاری نہیں ہوا تاہم وزیراعظم کے خصوصی معاونین کے طور پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر ندیم بابر اور ڈاکٹر ظفراللہ مرزا کے نوٹیفیکیشن جاری کردیے گئے ہیں۔
فردوس عاشق اعوان کو وزارت اطلاعات کے لیے مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ گذشتہ عام انتخابات میں سیالکوٹ سے ہار گئی تھیں۔ ڈاکٹر ندیم بابر اورینٹ پاور نامی کمپنی کے سابق سربراہ ہیں جنھیں پی ٹی آئی حکومت نے اکتوبر نے توانائی کے بارے میں ٹاسک فورس کا سربراہ تعینات کیا تھا۔ اب انھیں توانائی کے شعبے کا معاون خصوصی تعینات کیا گیا ہے۔
صحت کے شعبہ میں تعینات کیے گئے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو پارٹی میں البتہ کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ عرصہ دراز بیرون ملک صحت کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ حکومت کے غیر منتخب معاونین کی فہرست میں سب سے زیادہ معاونین میڈیا سے متعلق ہیں۔ فردوس عاشق اعوان اس فہرست میں ابھی شامل ہوئی ہیں لیکن افتخار درانی اور یوسف بیگ مرزا پہلے ہی میڈیا کے امور دیکھ رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو میڈیا کے زریعے اپنا تاثر بہتر بنانا معیشت اور دیگر چیلنجز سے بڑا چیلنج لگتا ہے۔
اگر اسد عمر کو کابینہ سے نکال دیا جائے تو کابینہ میں وفاقی وزیروں کی کل تعداد 24 رہ جاتی ہے، پانچ وزرا مملکت، چار مشیران اور 13 خصوصی معاونین۔ یعنی کابینہ کے کل ارکان کی تعداد 46 ہو چکی ہے۔
اس سارے عمل میں اگر غیر منتخب افراد کی گنتی کی جائِے تو پتہ چلتا ہے ہے کہ 46 رکنی کابینہ میں وفاقی وزیر کے برابر عہدے کے حامل غیر منتخب مشیران اور معاونین خصوصی یعنی ٹیکنو کریٹس کی تعداد 17 ہوچکی ہے۔ یہ تمام افراد اہم ترین امور کو دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے خیال میں کابینہ میں غیر منتخب معاونین تو محض پتے ہیں اصل مسئلہ تو جڑوں کا ہے جو بہت سنگین مسئلہ ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر غیر منتخب افراد آئین میں درج ہدایات کے مطابق ہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔
احمد بلال محبوب کی فکر انگیز باتیں اپنی جگہ مگر عملی طور پر وفاقی کابینہ کے اہم ترین امور یہ غیر منتخب لوگ ہی دیکھ رہے ہیں جن میں عبدالحفیظ شیخ ایک اہم اضافہ ہوں گے۔
اس سے قبل احتساب امور کی نگرانی برطانیہ سے تعلیم یافتہ لیکن غیر منتخب معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر کر رہے ہیں جو ملک میں جاری احتسابی عمل کے نگران اعلیِ ہیں۔ وزیراعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی نعیم الحق بھی ایک غیر منتخب شخصیت ہیں۔
ایسا واضع طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ ہر گذرتے وقت کے ساتھ وزیراعظم عمران خان منتخب ارکان سے دور ہو کر غیر منتخب ٹیکنو کریٹس کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ وہ بہتر کارکردگی نہ دکھانے پر تبدیلیاں لے کر آئے ہیں اور جو بھی بہتر کارکردگی نہیں دکھائے گا اور ملک کے لیے بہتر نہیں ہو گا وہ اسے بدل دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ مزید غیر منتخب افراد کو کابینہ میں شامل کر کے کیا وزیراعظم مطلوبہ نتائج حاصل کر لیں گے؟
No comments:
Post a Comment