Thursday, January 3, 2019

کاروبار ٹھپ، بیروزگاری عام۔ سب انڈے مرغی بیچو

انصار عباسی

تحریک انصاف حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور 
پچاس لاکھ گھر تعمیر کریں گے لیکن عمران خان کی حکومت کے پہلے چار ماہ کے دوران مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کاروباری لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ اُن کے کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔ پچاس لاکھ گھر تو نجانے کب بننا شروع ہوں گے مگر فی الوقت پراپرٹی، ہائوسنگ سوسائٹیوں اور گھروں کی تعمیر کے کاروبار کو ملک بھر میں شدید مندی کا سامنا ہے اور محض ہائوسنگ سوسائٹیوں نے بڑی تعداد میں اپنے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ تین چار ماہ کے دوران روپے کی قدر میں تاریخی کمی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف اقدامات کئے لیکن نہ ملکی معیشت کی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں اورنہ ہی سرمایہ کاری، ٹیکس وصولی اور برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے برعکس ٹیکس وصولی میں پہلے چھ ماہ کے دوران 175ارب کی کم وصولیاں ہوئی ہیں۔ سرمایہ کاری میں بھی کوئی بہتری نہیں دیکھی گئی، ترسیلاتِ زر بھی گزشتہ ایک دو ماہ سے پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہو رہی ہیں۔ اندرونِ ملک کاروبار کرنے والے انویسٹمنٹ سے گھبرا رہے ہیں۔ آج (بدھ کو) شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ سرکلر ڈیٹ مزید بڑھ کر تقریباً چودہ سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں‘ جن پر عمران خان کو بہت بھروسہ تھا، بھی پاکستان میں پیسہ لگانے میں ابھی تک دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک سے کئی ارب ڈالر ملنے کے وعدے کے باوجود ملکی معیشت اور کاروبا ری حالات بہتر نہیں ہو رہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں، اس پر مختلف افراد کی آراءمختلف ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر نہ کوئی باہر سے پیسے پاکستان میں انویسٹ کرے گا اور نہ ہی ہمارے اپنے کاروباری حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عمران خان کی حکومت کو تو جیسے شوق ہے کہ نہ خود سکون سے رہنا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو سکون سے رہنا دینا ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ جب حکومت کی طرف سے ایک کے بعد ایک نیا تنازع پیدا نہ کیا جائے۔ جب وزیراعظم عمران خان خود کہیں کہ مڈٹرم الیکشن ہو سکتے ہیں، جب تحریک انصاف کے حکومتی وزرا اور تحریک انصاف کے رہنما اپنی حریف جماعت کی صوبائی حکومت کو گرانے کی بات کریں گے، گورنر راج لگانے کا اعلان کریں گے، اپوزیشن کے ساتھ لڑائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں گے تو کوئی یہاں کیوں انویسٹمنٹ کرے گا؟ پھر یہاں کے کاروباری حالات کیسے بہتر ہوں گے؟ ایف بی آر کی جانب سے نئے ٹیکس دہندگان کو ڈھونڈنے کے بجائے‘ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں، اُنہیں کو نوٹس پر نوٹس دیئے جا رہے ہیں۔ فرنیچر کے کاروبار سے منسلک ایک بڑے کاروباری نے مجھے بتایا کہ وہ ایک ایماندار ٹیکس دہندہ ہے لیکن ٹیکس سے متعلقہ اداروں کے ہاتھوں اتنا تنگ ہے کہ اب سنجیدگی سے سوچ رہا ہے کہ اپنا کاروبار پاکستان میں بند کرکے کسی دوسرے ملک شفٹ ہو جائے۔ عدلیہ، حکومت اور سیاستدان بار بار یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستانیوں کے اربوں ڈالر باہر پڑے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں نے دبئی، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ جناب! پاکستان میں کاروباری افراد اور پیسے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، اُس کی وجہ سے جس کو موقع ملتا ہے، اپنا پیسہ ملک سے باہر لے جاتا ہے۔ یہاں تو جس کے پاس پیسہ ہے‘ اُسے چور ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر نیب سے تفصیلات طلب کی جائیں کہ پاکستان کے کن کاروباری افراد کے خلاف اُس نے سالہا سال سے فائلیں کھول رکھی ہیں تو پتا چلے گا کہ شاید ہی کوئی بڑا کاروباری نیب سے بچا ہو۔ ہمارے کتنے ایسے کاروباری افراد ہیں جنہوں نے یہاں کے حالات سے بددل ہو کر اپنا کاروبار بنگلہ دیش، دبئی اور دوسرے ممالک میں شفٹ کر دیا۔ کاروباری افراداور سرمایہ کاری کرنے والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کی مثال اُن پرندوں کی سی ہوتی ہے جو اُس درخت سے اُڑ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا ہے، کاروبار کو بڑھانا ہے تو حکومت کو سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقہ کو یقین دلانا ہو گا کہ اُن کا سرمایہ اور کاروبار نہ صرف یہاں محفوظ رہیں گے بلکہ وہ منافع بھی کمائیں گے اور اپنے کاروبار کو وسیع بھی کریں گے۔ اس کے لیے سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ جب کاروبار کرنے والوں کو یقین ہی نہ ہو کہ یہ حکومت رہے گی بھی یا نہیں، یا جب وہ حکومت کو ہر روز اپوزیشن سے لڑتے دیکھتے ہوں، جب اُنہیں معلوم ہو کہ حکومت نہ تو کوئی قانون سازی کرنے کے قابل ہے اور ہی کوئی مستقل پالیسی نظر آ رہی ہے تو پھر وہ کیونکر کاروبار اور سرمایہ کاری کریں گے؟ کاروباری طبقہ کے ساتھ زیادتی تو ہو رہی ہے کہ جو کاروبار اُن کا پہلے سے چل رہا تھا اُسے بھی بند کرنے کے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے سبب خدشہ ہے کہ کہیں ایسی صورتحال پیدا نہ ہو جائے کہ تمام کاروبار ٹھپ ہو جائیں اور ہر کسی کو یہاں مرغیاں اور انڈے بیچ کر ہی گزارا کرنا پڑے۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پاکستان کو جلد ایک ایسے اقتصادی بحران کا سامنا ہو گا جس کا نقصان حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی پہنچ سکتا ہے۔ کاش حکومت کو کوئی یہ بات سمجھائے!!!
https://jang.com.pk/news/594028-supreme-court

No comments: