وہ ایک ادھورا کام کرنے وطن واپس آئیں۔ ادھورا کام یہ تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر مرنے آئی تھیں۔ مٹی سے اپنی وفا میں سرخ رنگ بھرنے آئی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے دس سال قبل 1997ء میں مارکسٹ دانشور ٹیڈ گرانٹ نے اسپین کے شہر بار سلونا میں منو بھائی کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا جائے گا۔ ٹیڈ گرانٹ اور منو بھائی ایک کانفرنس میں اکٹھے ہوئے تھے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ ٹیڈ گرانٹ بائیں بازو کے اُن دانشوروں میں سے ایک تھے جنہوں نے سب سے پہلے سوویت یونین کے بکھرنے کی پیش گوئی کی تھی۔ منو بھائی نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کیا بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی سیاست سے باہر کر دیا گیا ہے؟ ٹیڈ گرانٹ نے نفی میں سر ہلایا لیکن اگلے ہی لمحے کہا کہ پاکستان کی مقتدر طاقتوں کو بے نظیر بھٹو کی دوبارہ ضرورت پڑے گی یہ طاقتیں اُنہیں پھر سے استعمال کرنے کی کوشش کریں گی اور پھر اُنہیں قتل کر دیا جائے گا۔ کچھ عرصہ بعد منو بھائی نے ٹیڈ گرانٹ کا یہ تجزیہ بے نظیر صاحبہ کو بتا دیا اور کہا کہ آپ کا جسمانی وجود ختم کیا جا سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ سُن کر کہا ... ’’ہاں یہ تو میں بھی جانتی ہوں۔‘‘
محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27؍ دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا لیکن اُنہوں نے اپنی زندگی کو درپیش خطرات کا کھل کر 1990ء میں میرے سامنے اظہار کیا۔ یہ اُن کی حکومت ختم ہونے کے چند ہفتوں بعد کی بات ہے۔ اُنہوں نے اسلام آباد میں مجھے روزنامہ جنگ کے لئے ایک انٹرویو دیا اور کہا کہ اُنہیں قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ آصف علی زرداری کو گرفتار کیا جا چکا تھا اور محترمہ کو پیغامات بھیجے جا رہے تھے کہ آپ زرداری کو چھوڑ دیں یا ملک چھوڑ دیں ورنہ آپ کو قتل کر دیا جائے گا۔ جب دھمکیاں بڑھ گئیں تو ایک دن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک سال کے بلاول کو اپنے ایک قابل اعتماد معتمد بشیر ریاض کے سپرد کیا اور کہا کہ آپ اسے لندن لے جائیں کیونکہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑیں گے۔ بشیر ریاض فلپائن ایئر لائنز کی پرواز سے ایک سالہ بلاول کو لے کر لندن پہنچے اور اُنہیں اُن کے دادا حاکم علی زرداری کے حوالے کیا جو بغرض علاج پہلے سے وہاں موجود تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میری آخری ملاقات اُن کی شہادت سے چند روز قبل اسلام آباد میں ہوئی۔ اس مرتبہ اُنہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ کراچی میں اُنہیں قتل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی اب اُنہیں دوبارہ ٹارگٹ کیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے قتل کا ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہو گا۔ اُن کی گفتگو سُن کر میں لرز گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ میرے مرنے کے بعد آپ میرے قاتلوں کو بے نقاب کریں گے۔ میں نے لرزتے ہونٹوں سے کہا کہ بی بی مجھ پر مشرف نے پابندی لگا رکھی ہے میں ٹی وی پر نہیں آ سکتا میرا اخبار بھی شدید دبائو میں ہے شاید میں پاکستان میں سچ سامنے نہ لا سکوں لیکن پاکستان سے باہر کسی اخبار یا ٹی وی پر سچ ضرور بول دوں گا۔ میں نے بی بی سے التجا کی کہ آپ خطرات سے نہ کھیلیں اور اپنی زندگی کا خیال رکھیں۔ اُنہوں نے لیموں اور شہد کے قہوے کا گھونٹ لیا اور کہا کہ میں سرنڈر نہیں کروں گی، یہ موت سے مجھے نہیں ڈرا سکتے۔
اس واقعہ کے چند دن بعد اُنہیں لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ 26اور 27؍ دسمبر کی درمیانی شب پرویز مشرف کے ایک دست راست محترمہ بے نظیر بھٹو کو ملنے زرداری ہائوس اسلام آباد آئے اور کہا کہ آپ لیاقت باغ نہ جائیں آپ پر حملے کا خطرہ ہے۔ محترمہ نے یہ مشورہ دینے والے سینئر فوجی افسر سے کہا کہ آپ کو چاہئے تھا کہ مجھے کہتے کہ خطرے کے باوجود آپ لیاقت باغ ضرور جائیں ہم مل کر دہشت گردوں کی سازش ناکام بائیں گے لیکن آپ تو مجھے سرنڈر کا مشورہ دے رہے ہیں، میں یہ نہیں کروں گی اور لیاقت باغ ضرور جائوں گی۔ پھر وہ لیاقت باغ گئیں۔ جلسے سے خطاب کیا۔ لیاقت باغ سے باہر نکلیں اور شہید کر دی گئیں۔
اپنی شہادت سے کچھ دن پہلے اُنہوں نے وہ این آر او ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا جس کی مدد سے وہ مشرف کی وردی اُتروانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ پرویز مشرف کا این آر او ایک دھوکہ تھا۔ وہ صرف پیپلز پارٹی کو استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نہیں بنانا چاہتا تھا۔ بے نظیر صاحبہ مشرف کی مرضی کے خلاف وطن واپس آ گئیں تو اُنہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔ خطرات کے باوجود سیکورٹی فراہم نہ کی گئی اور جب اُن پر این آر او کی حقیقت کھلی تو انہوں نے مشرف کے ساتھ اپنا ڈائیلاگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اُنہیں اپنی موت کا اتنا پکا یقین تھا کہ بیٹی بختاور کی سالگرہ جو 25جنوری کو تھی دسمبر میں منا لی۔ سندھ کی روایات کے مطابق موت کے بعد بیوی کو اپنے خاوند کے ہمراہ دفن کیا جاتا ہے۔ محترمہ کا خیال تھا کہ وہ زرداری خاندان کے قبرستان میں دفن ہوں گی۔ اُنہوں نے آصف زرداری سے اجازت طلب کی کہ مجھے میرے والد کے ہمراہ دفن کیا جائے۔ موت سے کچھ دن پہلے اپنے آبائی قبرستان گئیں اور وہاں ضروری ہدایات بھی دے دیں۔ کیا دولت اور اقتدار کے پجاری اتنی بہادری سے موت کو گلے لگاتے ہیں؟
محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1977ء سے 2007ء تک اپنی 30سالہ سیاسی زندگی میں سے 24سال اپوزیشن میں جدوجہد کی، بمشکل دو ادوار میں ساڑھے چار سال اقتدار میں گزارے۔ دونوں دفعہ اُن کی حکومت مدّت پوری نہ کر سکی۔ سیاسی مخالفین اُنہیں سیکورٹی رسک قرار دیا کرتے تھے۔ اس سیکورٹی رسک کا مقابلہ کرنے کے لئے جنرل ضیاء الحق نے جی ایم سیّد کی خدمات حاصل کیں اور جنرل پرویز مشرف نے الطاف حسین کی خدمات حاصل کیں۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف سازش کرنے والے کئی چہرے بے نقاب کر چکا ہے لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد، والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ دفن ہیں اور اُن کی اولاد کو بدستور انصاف کا انتظار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب پیپلز پارٹی خود اقتدار میں تھی تو بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا کیوں نہ دلوا سکی؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس قتل کی تحقیقات کے لئے اقوام متحدہ کا انکوائری کمیشن بنوایا تھا۔ اس کمیشن کے سربراہ ہیرالڈ میونوز کی کتاب ’’قاتل بچ نکلا‘‘ پڑھ لیں پتہ چل جائے گا کہ قاتل حکومت سے زیادہ طاقتور تھا اور اسی لئے قاتل کا پیچھا کرنے والے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار علی کو 2013ء میں اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ جس این آر او کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں خیر باد کہہ دیا پیپلز پارٹی نے اُسے گلے لگائے رکھا۔ مقتدر قوتوں کے سامنے اچھا بچہ بننے کی کوشش کی اور پرویز مشرف کا ٹرائل کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ یہ نتیجہ میمو گیٹ کی صورت میں سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی کو پھر سے استعمال کر کے ذلیل کیا گیا۔ بہتر ہوتا کہ پیپلز پارٹی اپنی لیڈر کے نامزد کردہ قاتل کے ٹرائل کے لئے ڈٹ جاتی اور بے شک حکومت کی قربانی دے دیتی لیکن مشرف کے ٹرائل پر آصف زرداری نے بھی سمجھوتہ کیا اور نواز شریف نے بھی دونوں کو کیا ملا؟ آج پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرپشن کے نئے الزامات کا سامنا ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی کسی نہ کسی کو بار بار ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہ بار بار استعمال ہونا بند کر دیں اور اپنی پارٹیوں میں جمہوریت لائیں تب ہی بچ پائیں گے ورنہ انہیں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اپنی وفا کا یقین دلانے کے لئے جان کی قربانی دینی نہ پڑ جائے۔
No comments:
Post a Comment