عزیز اللہ خان
یہ کیسے آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے، میں نے اپنے بچے کی لاش جس طرح دیکھی میں ہی جانتی ہوں، وہ بچہ جو چند روز پہلے ایک انجیکشن کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا تھا جانے کیسے اتنی گولیاں اس کے جسم کو چھلنی کر گئیں، میرے بچے کے دونوں بازو فریکچر تھے اور جرسی گولیوں سے ادھڑ گئی تھی۔'
یہ باتیں ایسی اشکبار ماں کے ہیں جو آج چار سال بعد بھی اپنے بیٹے کا غم بھلا نہیں پائیں۔ صرف یہ ایک ماں نہیں بلکہ ایسے 147 والدین ہیں جو ہر روز مرتے ہیں اور ہر روز جیتے ہیں۔
پشاور کے ایک مکان میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے بچوں اور اساتذہ کے والدین اور رشتہ دار مہینے میں ایک یا دو بار ضرور اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس ملاقات میں یہ والدین اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں، ان کی باتیں اور ان کی یادیں لیے یہ لوگ چار سے پانچ گھنٹے اکٹھے بیٹھے رہتے ہیں اور ان باتوں سے اپنے دل کا غم کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نوراللہ آرمی پبلک سکول کا طالبعلم تھا۔ نوراللہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ نور اللہ ہنس مکھ تھا لیکن ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ 'حملے سے کچھ روز پہلے ڈاکٹر کے پاس گئے تو ایک انجیکشن کا درد سہہ نہیں سکا اور اس نے ہسپتال میں خوب شور مچایا تھا۔'
حملے کے بعد جب انھوں نے اپنے بیٹے نور اللہ کی لاش دیکھی تو برداشت نہیں کر پائیں۔ اشک بار آنکھوں سے ماں کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو بہت بے دردی سے مارا گیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ان کا چہرہ آنسووں سے بھیگ چکا تھا۔ وہ بتا رہی تھیں کہ ان کے بیٹے کا سینہ گولیوں سے چھلنی تھا یہاں تک کہ جرسی بھی ادھڑ گئی تھی، دونوں بازو کندھوں سے ٹوٹ چکے تھے جسم خون خون تھا اور وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ نہ جانے ان کے بچے پر کیا گزری ہوگی، جب اتنی گولیاں لگی ہوں گی تو اس وقت ان کے بیٹے کا کیا حال ہوا ہو گا۔
اسی طرح دیگر والدین بھی اپنے بچوں کی باتیں کرتے رہے۔ ان والدین کا کہنا تھا کہ عجیب دہشت گرد تھے جو ٹیچرز کے کانوں کی بالیاں بھی نوچ کر چلے گئے، لاکٹ بھی چھین لیا اور ان کے پرس بھی غائب تھے، یہ کیسے عجیب دہشت گرد تھے۔
شدت پسندی کے ایک واقعے کے شکار 100 سے زیادہ خاندان ایک بڑے خاندان کی شکل اختیار کر گئے ہیں جہاں ان کے دکھ اور سکھ اب مشترکہ ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں، شادی بیاہ کی تقریبات ہوں، ان میں کوئی مشکل کا شکار ہو یا کوئی غم یا فاتحہ ہو یہ خاندان اس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر سنہ 2014 کو ہونے والے حملے میں 130 بچوں سمیت 147 افراد شدت پسندوں کا نشانہ بنے تھے۔
ان دنوں پشاور کے ورسک روڈ پر ایک مکان میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں اور اساتذہ کی تصویریں، یونیفارم، بستے، کتابیں، جوتے اور ان کی ڈھیر ساری یادیں سجا کر رکھی گئی ہیں۔ اس سے قبل گلبرگ اور پشاور صدر کے علاقے کے ایک مکان میں بھی ایسی یادیں رکھی گئی تھیں۔
گل شہزاد خٹک کی بیٹی سعدیہ گل آرمی پبلک سکول میں انگریزی کی استانی تھیں۔ وہ اس حملے میں شدت پسندوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئی تھیں۔ اس مہینے ان کے مکان میں یہ خاندان دوسری مرتبہ اکٹھے ہوئے تھے۔ اس مرتبہ کوئی ایک درجن گھرانوں کے افراد ایک خاندان کی شکل میں یکجا ہوئے، کھانا کھایا، چائے پی اور اپنے اپنے دلوں کی باتیں ایک دوسرے سے کیں۔
وہ کہہ رہے تھے کہ عجیب دہشت گرد تھے جو چوریاں بھی کرتے رہے، کسی ٹیچر کے کانوں سے سونے کی بالیاں نوچ لی گئی تھیں، کسی کے گلے سے لاکٹ اچک لیا گیا تھا اور پرس تو سب کے غائب تھے۔ ایک والد نے کہا کہ لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، خاص طور پر جب لاشیں شہ زور ٹرکوں میں ہسپتالوں کو منتقل کی جا رہی تھیں۔
مائیں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہی تھیں کہ ان کے بچوں پر کیا کچھ گزری ہو گی اور جو وسوسے ان کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے تھے ان چار سالوں میں وہ وسوسے جوں کے توں ہیں کہ آخر بچوں نے اتنا تشدد کیسے برداشت کیا ہو گا۔
شاہانہ اجون اپنے بیٹے اسفندیار کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کا بستر دیکھتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ہر وقت ان کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوتی ہیں کہ ابھی اسفند گھر میں داخل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی جانتی ہیں کہ ان کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔
شاہانہ اجون کہتی ہیں کہ وہ مجرمان کو سزا دینے کا حق کسی اور کو نہیں دیں گی۔ سکیورٹی ایجنسیاں صرف ان قاتلوں کو گرفتار کریں اور انھیں سزا والدین کی مرضی سے دی جائے گی۔
گذشتہ برسوں میں پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے ایک آرمی پبلک سکول کے واقعے پر تحقیقات کا مطالبہ چار برسوں سے جاری ہے۔ مختلف ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ جن بچوں نے یہ واقعہ دیکھا یا اس میں زخمی ہوئے تھے وہ اس واقعے کو بھلا نہیں پا رہے۔
ایک دوست نے بتایا کہ ایک چھوٹے بچے پر اس واقعے کا اتنا اثر ہوا ہے کہ اس کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہا اور اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک والد نے بتایا کہ اس حملے میں زخمی ہونے والا ایک بچہ حملے کے دو سال بعد انتہائی تکلیف میں دم توڑ گیا۔ اس بچے کی گردن پر شدید زخم آئے تھے۔
ان والدین کا اب یہی مطالبہ ہے کہ اس حملے کے اصل ذمہ داروں کو سامنے لایا جائے اور ان ذمہ داروں کا تعین کیا جائے جن کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا یا جن کی غفلت کے نتیجے میں اتنا جانی نقصان ہوا۔ اس بارے میں کمیشن کی رپورٹ آئندہ چند روز میں متوقع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کمیشن میں ذمہ داری کا تعین کیا جا سکے گا اور کیا اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی؟
پاکستان میں متعدد واقعات پر جوڈیشل کمیشن قائم کیے گئے لیکن ان کی رپورٹس منظر عام پر مشکل سے ہی آ سکی ہیں۔
No comments:
Post a Comment