قصور میں کمسن زینب پر گزرنے والی قیامت ہمارے سماجی اوراخلاقی زوال و ابتری کی انتہا ہے، اس انسانیت سوزواقعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم درجہ آدمیت سے بھی گرتے چلے جارہے ہیں۔ اس المناک واقعے پر ہرآنکھ پرنم ہے اور ہر دل درد سے تڑپ اٹھا ہے۔ غم وغصہ بھی ہے اور اپنی اخلاقی پستی کا ماتم بھی۔ ہر صاحب اولاد کے دل میں بڑھ جانے والا خوف اس پر مستزاد ہے۔ منگل کے روز قصور میں لاپتہ ہونے والی آٹھ سالہ زینب کی لاش اس کے گھر سے دو کلومیٹر دور کوڑے کے ڈھیر پر ملی جسے کوئی نامعلوم شخص زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے وہاں پھینک گیاتھا۔ اس بہیمانہ قتل کی خبر سامنے آئی تو شہر میں پرتشدد احتجاج شروع ہوگیا۔ مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بول دیااور توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے فائرنگ کردی جس سے دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ شہر کی صورت حال دیکھتے ہوئے رینجرز طلب کر لی گئی۔ زینب کی نماز جنازہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی۔ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعلیٰ پنجاب نے زینب قتل کیس کا نوٹس لے لیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف نےکہا درندوں کو نشان عبرت بنایاجائے، حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ ملزموں کا سراغ مل گیا ہے جلد پکڑ لیں گے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس سے 24گھنٹوں میںرپورٹ طلب کر لی ہے۔ آرمی چیف نے زینب کے بے رحمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے فوج کو مجرموں کی گرفتاری میں مکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ملزموں کی گرفتاری میں مبینہ غفلت برتنے پر ڈی پی او ذوالفقار احمد کو او ایس ڈی بنا دیا۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس افسوس ناک واقعے پر لوگوں کا مشتعل ہونا فطری امر ہے لیکن عوام سے گزارش ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں، ملزم جلد گرفتار کر لئے جائیں گے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے لگتا ہے کہ بچی ملزم کو جانتی تھی اور یہ شخص متاثرہ خاندان کا قریبی معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملزموں کو 8سے10گھنٹے کے اندر گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ مذکورہ سانحہ دراصل ہمارے سماج کی تنزلی کا عکاس ہےاور اس کا تذکرہ اس معاشرے کا نوحہ۔ پورے ملک کی حالت یہ ہو چکی کہ انسان تو نظر آتے ہیں لیکن ایسے واقعات بھی جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ قانون کا نفاذ کہیں دکھائی نہیں دیتا اور اس کا ذمہ دار محکمہ، پولیس توگویا اپنے ہونے کا جواز بھی کھوتا چلا جارہا ہے۔ زینب کے اہل خانہ کا بیان ہے کہ انہوں نے پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوا کر دی لیکن پولیس 5روز تک بچی کو تلاش نہ کرسکی۔ علاقہ مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں، اگر ایسا ہی ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کس مرض کی دوا ہیں؟ قصور میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، یاد رہے کہ 2015ء میں یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تھی کہ قصور سے 5کلومیٹر اور حسین خان والا گائوں میں درجنوں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئی تھیں، ان بچوں کی عمریں 14سال سے کم تھیں، اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہ سکا۔ اس حوالے سے سخت ترین اقدامات کئے جاتے اور ملزموں کو نشان عبرت بنایا جاتا تو ایسے سانحات میں کمی ممکن تھی۔ خیر یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوگئے ورنہ بچوں کے استحصال کے حوالے سے درست اعداد و شماراکٹھے کئے جائیں تو جو ہوش ربا حقائق سامنے آئیں وہ ہمارے معاشرے کے منہ پر طمانچے سے کم نہ ہوں گے۔ گھروں، درس گاہوں، کام کی جگہوں پرایسے استحصال کی خبریں آتی رہتی ہیں اور 2017ء میں جس تواتر سے یہ خبریں سامنے آئی ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ان واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پر بات کرنے سے ہمیشہ احتراز برتا جاتا ہے، والدین اور بچوں کے مابین غیر ضروری جھجک بھی بسا اوقات بچوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کہ بچے کسی کی ناشائستہ حرکت کے بارے میں والدین کو مطلع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ بعض فلموں، ڈراموں اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے بچوں تو کیا بڑوں کو بھی ذہنی عوارض میں مبتلا کردیا ہے اور ان کے یہ نفسیاتی عوارض بعض اوقات اس قدر خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ وہ کوئی انتہائی اقدام سے بھی گریز نہیں کرتے۔ زینب کے معاملے میں ملزم کو نفسیاتی مریض بھی قرار دیا گیا، اس سے قطعی طور پر انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایسی درندگی ایک نارمل انسان میں نہیں ہوسکتی، ایک عرصہ قبل لاہور میں 100بچوں کا قاتل جاوید اقبال بھی پکڑا گیا تھا اور وہ بھی نفسیاتی مریض ہی تھا۔ لیکن ایسے مریضوں کی پہچان ایک ذی شعور انسان کو بھی نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ بچوں کو۔ ان تمام معاشرتی حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھیں، بچوں کی تربیت میں انہیں آسائشیں اور بہترین تعلیم فراہم کرنا ہی شامل نہیں، ان کو اچھے برے کی تمیز سکھانا اور ان کا تحفظ بھی لازم ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بچوں سے زیادتی میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث پائے جاتے ہیں جو بچوں کے والدین کے شناسا ہوتے ہیں اور بچے ان سے مانوس۔ مثلاً رشتہ دار، والدین کے دوست، اساتذہ، پڑوسی اور ملازمین وغیرہ۔ اس کی ایک وجہ والدین کی حد سے زیادہ بے پروائی اور غفلت ہے اور ایک دوسرے پر بے جا اعتماد۔ بچے پیار اور توجہ کے متلاشی ہوتے ہیں اور کسی کی اچھی بری نیت کے فرق سے نابلد۔ والدین کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں بلکہ ان سے ان کے دوستوں کے بارے میں بھی گفتگو کے ذریعے آگاہ رہیں۔ والدین کو اپنے اور بچوں کے درمیان بے جا فاصلہ سمیٹنا اور بتدریج انہیں مناسب انداز اور الفاظ میں شعور دینا چاہئے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ یہ دوستانہ تعلق بچوں کو کسی اجنبی کی طرف مائل ہونے سے روکے گا۔ حکومت نے اس سلسلے میں جو اقدامات کرنے کے دعوے کئے ہیں انہیں پورا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے، ملزموں کو جلد گرفتار کرکے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ ایسے سانحات کا سلسلہ تھم سکے۔
No comments:
Post a Comment