Friday, January 12, 2018

بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے انکے ساتھ جرائم پر سرعام پھانسیاں دینا ہونگی - #JusticeForZainab







زینب کے قتل پر قصور میں مظاہرے جاری ‘ حالات بے قابو‘ قصور کا دوسرے شہروں سے رابطہ منقطع
زینب قتل کیس پر قصور میں فضابدستورسوگوار ہے‘ شہر کے مختلف مقامات پر دوسر ے روز بھی مظا ہر ے کیے گئے جبکہ شہر کا دوسرے شہروں سے زمینی راستہ بھی منقطع ہوگیا۔ قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی گئی 7 سالہ بچی زینب کے قاتل اب تک گرفتار نہیں کیے جاسکے جس پر دوسرے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور شہر میں شٹرڈائون ہڑتال کی گئی ہے جبکہ مقامی سیاسی رہنماء احمد رضا قصوری کا دعویٰ ہے کہ قاتل گرفتار کرلئے گئے ہیں جن کی مناسب وقت پر گرفتاری ظاہر کردی جائیگی۔ مظاہرین نے کالی پل چوک پر دھرنا دیا۔ وکلا نے قصور میں بچی کے قتل کیخلاف ہڑتال اور یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا، پنجاب بار کونسل کا کہنا ہے کہ مقتولہ زینب کے والدین کو مفت قانونی معاونت فراہم کی جائیگی۔زینب قتل کیخلاف احتجاج کے دوران گزشتہ روز پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے شعیب اور محمد علی کی تدفین کردی گئی۔ مظاہرین پر فائرنگ کے الزا م میں 2 پولیس اور دو سول ڈیفنس اہلکار گرفتار ہیں ۔ ادھر بچی سے زیادتی کے ملزم کا پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا خاکہ بھی غلط نکلا کیوں کہ خاکہ ویڈیو میں نظر آنیوالے شخص سے مشابہت نہیں رکھتا۔عمرے کی ادائیگی کے بعد واپسی پر کمسن بچی کے والد محمد امین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کوئی تعاون نہیں کیا لیکن دوستوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں ملزمان کی شناخت بھی ہوگئی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی۔وزیراعلیٰ پنجاب نے دوسرے روز صبح بچی کے والد سے ملاقات کرکے انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ حکومت پنجاب کی طرف سے ملزم کی نشاندہی کرنیوالے کیلئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
قصور میں معصوم بچی کے ساتھ بربریت کے بعد حالات کے بے قابو ہونے کا ایک خصوصی پس منظر ہے۔ دو سال قبل اسی علاقے میں بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا سکینڈل سامنے آیا۔ ڈیلی دی نیشن نے شیطان صفت انسانوں کے چہرے سے نقاب الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ انسانیت دشمن گروہ منظم طریقے سے گھنائونا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے‘ بچوں کی سیکڑوںاخلاق باختہ ویڈیو سامنے آئیں مگر متعلقہ اداروں کی کوتاہی غفلت اور ملزموں سے ملی بھگت کے باعث کسی ملزم کو بھی عبرت کا نشان نہ بنایا گیا جو جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا۔ بچوں کے اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا قصور ہی تک محدود نہیں‘ ایسے بہیمانہ واقعات ملک بھر میں ہوتے ہیں۔ دو روز قبل ڈیرہ غازی خان میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا گیا۔ شیخوپورہ میں بھی ایسے واقعہ کا اعادہ ہوا جہاں ملزم پکڑا گیا اور مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا۔
قصور کے دو تھانوں کی حدود میں چند ماہ کے اندر ایسے 11 المناک واقعات ہوچکے ہیں۔ ایک بے بس باپ‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی موجودگی میں ڈیڑھ ماہ سے لاپتہ ہونیوالی بیٹی کی تصویر میڈیا کو دکھا رہا تھا‘ اسکے بقول وہ بازیابی کیلئے پولیس کو ڈیڑھ لاکھ روپے رشوت دے چکا ہے ملزمان نامزد کئے گئے مگر پولیس ایکشن لینے پر تیار نہیں۔ اس شخص کی اپنی برادری عزیز داری ہوگی۔ پولیس کی طرف سے مظلوم کی بات نہ سننا ظلم ہے اور پھر جب مظلوموں کو موقع ملتا ہے تو اپنی دانست میں وہ جسے ظالم سمجھتے ہیں‘ اس کیخلاف ممکنہ طور پر آخر حد تک چلے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ قصور کے ایک محدود ایریا میں زینب جیسی 11 بیٹیوں کے ساتھ بربریت ہوئی۔ قصور سے ہٹائے جانیوالے ڈی پی او ایسی 8 بھیانک وارداتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔
اب جب زینب کے ساتھ ہونیوالی سفاکیت سامنے آئی تو علاقے کے لوگوں کا مشتعل ہونا فطری امر تھا مگر تشدد کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ زینب کے والد نے پرامن احتجاج کی بات کی ہے۔ مگر پرامن اجتماعات کو کچھ لوگ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ شرپسند بھی ہجوم کا حصہ بن کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ عموماً ایسے ہجوم کو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اگر انتظامیہ عقل و خرد سے کام لے تو نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے بھی جدید دور میں کئی طریقے ہیں۔ بڑے سے بڑا ہجوم بھی بپھر جائے تو لاٹھی چارج آخری آپشن ہوتا ہے۔ اپنے لوگوں پر فائرنگ سرے سے آپشن ہے ہی نہیں۔ انتہائی ناگزیرحالت میں بھی ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے اور امن قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے سیدھی فائرنگ کو پہلے آپشن کے طور پر اختیار کرتے دیکھے گئے ہیںجس سے حالات سلجھنے تو کیا ہوں‘ مزید الجھتے چلے جاتے اور قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ پھر رینجرز اور فوج کو طلب کرنا پڑتا ہے۔ مشتعل لوگ عموماً بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتے‘ ان کو تشدد سے باز رکھنے کیلئے فائرنگ کی جائیگی تو اشتعال میں اضافہ فطری امر ہے۔
قصور میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ بجا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے‘ قومی املاک کو نقصان پہنچانے اور امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی‘ ایسے اقدامات بھی نہیں کئے جانے چاہئیں جس میں اشتعال پھیلتا چلا جائے۔ ربڑ کی گولیاں‘ واٹر گنیں اور وقتی طور پر حواس سے بیگانہ کردینے والی گیسیں موجود ہیں۔ ان کو بروئے عمل لایا جاتا تو حالات میں اس قدر بگاڑ پیدا نہ ہوتا۔
لوگوں میں پولیس کی نااہلی‘ بے حسی اور اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر بھی اشتعال بڑھا ہے۔ ڈی پی او آٹھ بھیانک انسانیت سوز واقعات کا اعتراف کرتے ہیں۔ انکی ذمہ داری محض ایسے اعداد و شمار پیش کرنا ہی ہے؟ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے انہوں نے اور انکی ٹیم نے کیا کیا؟ کتنے کیسز ٹریس کئے اور انسانیت کے کتنے قاتلوں کو سزائیں دلائیں۔ ایسے افسروں کی معطلی بہت کم سزا ہے۔ ملتان میں وزیراعلیٰ انصاف کیلئے پولیس سے رجوع کرنے پر معمر جوڑے کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا تو شہبازشریف اس جوڑے کے گھر دادرسی کیلئے گئے اور فوری طور پر ذمہ دار پولیس افسروں کو برطرف کردیا۔ مجرمانہ غفلت پر معطلی کوئی سزا نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے لوگوں کا اس قدر اعتماد اٹھ چکا ہے کہ ہر واردات کے بعد فوج سے تحقیقات اور تفتیش کے مطالبات سامنے آتے ہیں۔
ایسے معاملات میں افراتفری کے بجائے بڑی سوجھ بوجھ سے فیصلے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پولیس نے ایک اور کوتاہی کی کہ جلدبازی میں ملزم کا خاکہ ہی غلط جاری کردیا۔ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی بھی کاغذی کارروائی پوری کرنے کیلئے فٹافٹ تشکیل دیدی۔ بچی کے والد نے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔
کچھ لوگ نصیحت کررہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں؟ کیا بچوں کو گھروں میں قید کردیا جائے۔ یہ پتھر کا دور نہیں ہے‘ جدید دور ہے۔ ایسا ظلم تو شاید پتھر کے دور میں بھی نہ ہوتا ہو۔ اگر بچے گھر سے باہر جائیں تو اس کا مطلب کہ جو بھی انہیں اٹھا کرلے جائے‘ انکے ساتھ جو بھی کرے اور قانون کی نظروں سے بچ جائے‘ یہ تو جنگل کا قانون ہوگیا۔
ایسے رویے‘ سوچ اور ذہنیت کو دفن کرنے کی ضرورت ہے۔ ایساقانون کی اسکی روح کے مطابق کارفرمائی ہی سے ممکن ہے۔ ہمیں بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔ یہی نونہالان قوم معمارانِ مملکت ہیں۔ بچوں کے ساتھ جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں‘ ایسے جرائم دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جس کی سزا موت ہے۔ جس کے تحت متاثرہ بچی یا بچے کے لواحقین بھی مجرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ بچوں کو جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسے قوانین کی اشد ضرورت ہے جن کا عنوان ہی یہ ہو کہ جو بچوں کو ہاتھ لگائے پھانسی کی سزا پائے۔

No comments: