Sunday, December 4, 2016

نئی پیپلز پارٹی کا سفر

 جنید قیصر


نئی پیپلز پارٹی کا سفر، پاکستان کے روشن خیال، ترقی پسند اور محروم طبقات کے معاشرے میں کھوئے ہوئے مقام اور ان کے حقوق کی بحالی کا سفر ہے۔
new-ppp1
پیپلزپارٹی30 نومبر 2016 کو اپنے انچاسویں یوم تاسیس کے موقع پراپنے نوجوان تازہ دم چئیرمیں بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک نئے جوش و جذبے، نئے خوابوں اور نئی امیدوں کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کر چکی ہے، اس سے قبل تمام صوبوں میں پارٹی قیادت کی مضبوطی اور نئے لائحہ عمل کے لئے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، اور نئی پیپلز پارٹی کی صورت میں ایک نئی تنظیم متعارف کروائی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کا قیام 30 نومبر 1967 کو لاہور میں منعقد اس کے بانی کنونشن میں ہوا تھا، اور اب نئی پیپلز پارٹی کے سفر کے آغاز کے لئے بھی پنجاب کے صدر مقام کا ہی انتخاب کیا گیا ہے۔ انچاس سالہ اس سفر میں پیپلز پارٹی کو آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنے کے ساتھ ساتھ ان گنت مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا، قائدین اور کارکنان نے جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ اس کو پاکستان کے سیاسی منظرنامے سے مٹانے کے لئے کئی سازشیں ہوئیں، پھانسی کے پھندے سجائے گئے، سڑکوں پر ناحق خوں بہایا گیا، انتخابی شکست کے لئے آئی جے آئی تشکیل دی گی، حکومت کے خاتمے کے لئے ’’مڈنائٹ جیکال‘‘ کا منصوبہ بنایا گیا، اُس وقت کی عدالتیں بھی اخباری تراشوں کو ثبوت تسلیم کرکے پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے خاتمے کے فیصلے دیتی رہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے لئے کبھی مہران بینک استعمال ہوا تو کبھی طالبان اور آراوز استعمال ہوئے، مگر اس کے باوجود پارٹی نہ صرف قائم رہی بلکہ اس کی سربراہی میں پاکستان میں جمہوریت، وفاقیت اور آئین کی مضبوطی اور بالادستی کا سفر جاری رہا۔
ایک ایسی اسمبلی جس میں پارٹی کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہ تھی، اس میں 18ویں ترمیم کا پاس ہوکر73 کے آیئن کا اس کی روح کے مطابق بحال ہونا تاریخ ساز بنا۔ آصف علی زرداری کی سربراہی میں صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل ہوئے، وفاقیت اور صوبائی خودمختاری کے فلسفے کے تحت صوبوں کو حقوق اور وسائل پر اختیارات ملے۔ سیاسی مفاہمت، مکالمے اور رواداری کے تحت ساتواں این ایف سی ایوارڈ ہوا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سول ڈھانچے کے تحت کسی حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی اور پھر ایک حکومت سے دوسری حکومت کو پرُامن اقتدار کی منتقلی کی روایت قائم ہوئی۔ یہ وہ درخشاں اصول بنے، جس پر چل کر پاکستان کو اپنا جمہوری سفر کرنا ہوگا۔
اب اکسیویں صدی میں اس پارٹی کے چیلنجز ماضی سے مختلف ہیں۔ اب نہ وہ ’سرد جنگ‘ کی دائیں بائیں سیاسی نظریات کی وہ شناخت اور اہمیت رہی ہے، اور نہ ہی وہ طبقاتی تقسیم کی شکل و صورت۔ نئے نئے شہروں اور جدید تقاضوں کے ساتھ کئی نئے سماجی، سیاسی اور پیشہ ورانہ گروہ وجود میں آچکے ہیں، جن کو متوجہ کرکے اور ان کا اعتماد حاصل کرکے ان کو اپنے ووٹرز میں تبدیل کرنا ہوگا۔ آج اس پارٹی سامنے سب سے بڑا چیلینج پنجاب میں، جس کو ماضی میں پارٹی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا تھا، اس میں پارٹی کی سیاسی قوت کوازسرنو بحال کرکے آئیندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت سازی کرنا ہے۔
سابق صدرآصف علی زرداری نے انچاسویں یوم تاسیس پراپنے پیغام میں جن دو بنیادی اصولوں پر زور دیا ہے، یعنی جمیوریت ہماری سیاست ہے اور طاقت کا مرکز اور ماخذ عوام ہیں، انہیں جمہوری بنیادیں پر پاکستان کی جمہوریت اور وفاقیت نے مضبوطی حاصل کرنی ہے۔ پاکستان میں ترقی پسند فکر اور منتخب نمائندگان کے لئے تنگ ہوتی سیاسی فضا اور اس پر غیر نمائندہ اداروں کے قابض ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، سابق صدر نے کارکردگی، ساکھ اور ڈلیوری کے ذریعے اس سیاسی عدم توازان کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔
انتخابات 2013 میں پیپلز پارٹی کی بالخصوص پنجاب میں ناکامی کی بہت سی وجوہات تھیں، جن میں کردار کشی کی ایک مکمل مہم، چوہدری افتخار کا متعصبانہ کردار، سیاسی عدالت کے سو موٹو نوٹسز، سابق جنرل کیانی اور جنرل (ر)پاشا کا میمو گیٹ میں کردار، پری پول ریگنگ کے طور پر طالبان کی دھمکیاں، لیول پلینگ گراوُنڈ کی عدم دستیابی، وغیرہ۔ مگر میرے نزدیک جس ہتھیار کے زریعے پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا، وہ ہے میڈیا، پاکستان کا ’مین سٹریم‘ جمہوریت کُش میڈیا۔
 اس جمہوریت کُش میڈیا کے ذریعے نہ صرف پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو متنفر کرکے کم کرنے کی سازش کی گی بلکہ لوگوں کے سامنے، جمیوریت، آئین، وفاقیت اور ترقی پسندی کے آفاقی اصولوں کو تضحیک، بے فائدہ، اور قابل نفرت بنا کر پیش کیا گیا، جو اینکر زیادہ بد تہذیب، غیر سائشتہ اورجمہوریت دشمن تھا، اُس کی ریٹینگ اور تنخواہ اسی حساب سے بڑھی۔ ایک ایسی رائے عامہ تخلیق کی گئی جو کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں سے زیادہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے خلاف تھی، ابھی گزشتہ روز اس رائے عامہ کا اظہار جھنگ کے ضمنی انتخابات میں ہوا، جس سے نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی ایک بار پھر واضع انداز میں سامنے آگئی۔
اس جمہوریت کُش میڈیا نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں اس کا نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔ میڈیا کی اس پی پی دشمنی کے بارے میں اب تو میڈیا اور صحافی حضرات خود کہہ رہے ہیں، ابھی موجودہ حکومت کے دوران جب ’جنگ گروپ‘ زیر عتاب آیا،اس پر صحافتی پابندیاں لگیں، قومی اداروں کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنے ’ٹائیگرز‘ کے ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے تو بہت سے ’جنگ گروپ‘ سے وابستہ صحافیوں نے پی پی کے خلاف ادارے اور اپنے کردار پر ندامت کا اظہار کیا، نہ صرف معذرت کی بلکہ عہد کیا کہ وہ آئندہ جمہوریت کے خلاف یہ کردار ادا نہیں کریں گے۔
انتخابات 2013 کے نامساعد ماحول میں جو پیپلز پارٹی کی ایک بڑی کمزوری رہی، وہ ’میڈیا وار‘ میں بہتر حکمت عملی سے مقابلہ نہ کرنے کی رہی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے، جیسے انتخابات 2013 میں پنجاب میں شکست سے قبل ہی میڈیا کے فرنٹ پر پارٹی ہتھیار ڈال کر شکست کھا چکی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ مین سٹریم میڈیا پارٹی کے خلاف تھا، مگر پھر بھی ذرائع ابلاغ اور انفارمیشن کمیونیکشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں جو دستیاب زرائع ہوسکتے ہیں، اُن کو بھی استعمال میں نہیں لایا گیا۔ چاہے وہ پارٹی کا اپنا اخبار ہو یا سوشل میڈیا کا جدید ’ٹول‘ ہو۔
اس عہد کے سیاسی تقاضے ہیں کہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاتے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ جیتے جائیں، ان کے جسم و جاں کو موافق بنا کر تسخیر کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی پیپلز پارٹی اپنے نئے سفر میں اپنے خوابوں اور دعووُں کی تکمیل کے لئے ذرائع ابلاغ پر دسترس اور اس کے موُثر استعمال کے لئے کس شکل میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔
نئی پیپلز پارٹی کا سفر، پاکستان کے روشن خیال، ترقی پسند اور محروم طبقات کے معاشرے میں کھوئے ہوئے مقام اور ان کے حقوق کی بحالی کا سفر ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس ایک درخشاں قابل فخر جمہوری ورثے کے ساتھ ایک جدید فکر کی نمائندہ نوجوان قیادت موجود ہے، اس نے لاہور میں انچاسویں یوم تاسیس کے موقع پر تمام علاقوں کے صوفیانہ ثقافتی رنگوں کی خونصورتی کو بکھیرا ہے، جو اس کے وفاق کی نمائندگی کی پہچان رہی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے کسانوں، مزدوروں، پیشہ ور ملازمین، روشن خیال خواتین اورمذہبی اقلیتوں کی امیدوں کا مرکز بھی یہی پارٹی ہے، اگر تنظیمی ڈھانچے درست اور ڈسپلن کے پابند رہیں، پارٹی کا پلیٹ فارم تمام طبقات کو فراہم کیا جائے اور پارٹی کا پیغام بروقت اور موثر انداز میں پہنچایا جائے، تو اس سفر کے کامیاب ہونے کی ٹھوس بنیادیں موجود ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی قوت کی بحالی اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ایک ایسی رائے عامہ کی ضرورت ہوگی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس میں غیر نمائندہ اداروں کے کردار سے واقف ہو، جمہوریت پر ایمان رکھتی ہو، وفاقیت کے تقاضوں کو سمجھتی ہو، آئین کی بالادستی کو مقدم مانتی ہو، پارلیمینٹ کو ہی تمام مسائل کا واحد حل سمجھے، مذہبی، ثقافتی، لسانی تنوع کو خوبصورتی تصور کرتی ہو، اپنی فکر اور سوچ میں متعصب نہ ہو، بیرونی دینا کو تنگ نظری سے نہ دیکھتی ہو، جدید فکر اور نظریات کا وسیع القلبی سے جائزہ لیتی ہو، اور خود کو نئے تقاضوں میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اگر پیپلز پارٹی ایک ایسی رائے عامہ کو غالب فکر بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس سے نہ صرف نئی پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان کا سفر بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ نئی پیپلز پارٹی کا یہ سفر درحقیقت نئے پاکستان کی جانب سفر کا آغاز ہے۔

No comments: