Sunday, March 10, 2013

’حملہ آور بیٹی کے تمام جہیز کو تباہ کر گئے‘......جوزف کالونی

BBC.COM
پنجاب حکومت نے بستی کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کردیا ہے۔ تاہم بستی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اب وہ کیسے زندگی کو دوبارہ شروع کریں گے اور اس میں انہیں کتنا وقت لگے گا۔ لاہور کے گنجان آباد علاقے بادامی باغ میں جلائے جانے والی مسیحی بستی کے مکینوں نے تمام دن اپنے جلے ہوئے گھروں کی راکھ کو ہٹا کر اپنے بچے کچھے سامان کی تلاش کرتے گزارا کہ شاید ان کی عمر بھر کی پونجی کا کوئی حصہ انہیں صیح سلامت مل جائے لیکن ان متاثرین کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ مسیحی بستی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کی عمر بھر کی جمع پونجی کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کا مستقبل بھی راکھ ہوگیا ہے۔ بستی جلنے سے جہاں کسی کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا تو کسی کی بچی کا جہیز جل گیا۔ مسیحی متاثرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے رات دن محنت کرکے اپنے گھر کے لیے چیزیں خریدیں تھی لیکن سب ختم ہوگیا۔ اتوار کی صبح ہوتے ہی بستی کے مکینوں نے اپنے جلے گھروں کا رخ کیا اور بے گھر لوگوں کی طرح اپنے جلے گھروں کے باہر غمزدہ بیٹھے رہے۔ ان متاثرین میں بیوہ شاد بی بی بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے کچھ نہیں چھوڑا حتٰکہ ان کا مہینے بھر کا راشن بھی اپنے ساتھ لیےگئے ہیں۔ حکومت اور مختلف تنظیموں کی طرف سے بستی کے بے گھر مکین کے لیے کھانے کا انتظام بھی کیا جا رہ ہے لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں یہ کھانا ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ جلی ہوئی اپنے دکان کے باہر بیٹھے مسیحی نوجوان شان طارق کا کہنا ہے کہ جب ہمارا گھر ہی نہیں رہا تو کہاں کھانا کھائیں۔ان کے بقول زمین پر رکھ کر کھانا نہیں کھایا جا سکتا۔ انہیں متاثرین میں سے زاہدہ پروین بھی ایک ہیں جن کو یہ غم بےحال کر رہا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے آئندہ ماہ ہاتھ پیلے کیسے کریں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی اپریل میں ہونی ہے لیکن حملہ آور ان کی بیٹی کے تمام جہیز کو تباہ کر گئے ہیں اور اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دوبارہ جہیز تیار کر لیں۔ جوزف کالونی کے متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر اس طرح جلا دیے جائیں گے۔ وکرم مسیح نے بتایا کہ ان کے گھر کو آگ لگائی گئی اس میں ان کے تمام کے تمام کپڑے بھی جل گئے اور اب صرف ایک جوڑے کے علاوہ ان کے پاس پہننے کو کچھ نہیں۔ وکرم مسیح کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ماہ کے بعد تنخواہ ملے گی اس وقت تک وہ انہیں کپڑوں میں گزرا کرنے پر مجبور ہیں۔ان کے بقول جب تنخواہ ملے گی تو اس سے راشن خریدیں یا کپڑے؟ نسیم بی بی نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے میڑک کے امتحان دینا تھا لیکن بورڈ کی طرف سے جاری ہونے والی دستاویزات بھی جل گئی ہیں اور اب ان کی بیٹی امتحان میں کس طرح حصہ لے گی۔ ایک اور مسیحی خاتون نے بتایا کہ ان کے بچوں کے یونیفارم تک جلا دیےگئے۔ پنجاب حکومت نے بستی کے متاثرین کے لیے بستی کے باہر عارضی کیمپ بھی لگائے ہیں تاہم متاثرین نے ان تین کیمپوں کو ناکافی قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کتنی دیر ان کیمپوں میں وقت گزریں گے۔ امجد اور پطرس رکشا چلاتے تھے اور حملہ آور نے ان گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے رکشوں کو بھی آگ لگا دی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی بڑی مشکلوں سے اپنے روزگار کے لیے رکشے خریدے اب وہ کیسے خرید سکیں گے۔

No comments: