Friday, February 18, 2022

ہم اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس حکومت کو جمہوری انداز سے چیلنج کریں گے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری

 چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کے روز لاہور میں لاہور بار ایسوسی ایشن سے اپنے خطاب میں کہا کہ قانون کے بغیر نہ تو کوئی پریس ممکن ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اور نہ ہی جمہوریت۔ قانون معاشرے کو جوڑ کر رکھتا ہے اور ریات اور قوم کے درمیان ایک پل کا کام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور قانون کا ایک خاص رشتہ ہے۔ جب لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی وجود میں آئی تھی تو مشہور اخبار ڈان نے لکھا تھا کہ “بیروزگار وکیلو نے ایک پارٹی بنا لی ہے”۔ اب 50 سال بعد وہی پارٹی ملک میں قانون کی حکمرانی، آئین کی علمبرداری اور پاکستان کے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان ایک وکیل قائداعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا اور پاکستان کو ایک آئینی، اسلامی مملکت بھی ایک وکیل شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالتوں کا مشاہدہ اپنے بچپن سے کر رہے ہیں جب وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ مختلف کیسوں کے سلسلے میں عدالت اور جیل جایا کرتے تھے۔

 ان کے والد نے ساڑھے گیارہ سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور ان کی والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر زرداری 30سال سے ریاست اور حکومت وقت کے بنائے ہوئے مقدمات بھگتے رہے ہیں لیکن وہ نہایت شکرگزار ہیں کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے کہ “یااللہ یا رسول، بینظیر بے قصور”۔ وہ عدالتیں یہ مقدمات سماعت ہوتے تھے اور افتخار چوہدری کی عدالت ہی نے دونوں کو ہر کیس میں باعزت بری کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو فری ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا اور ان کے عدالتی قتل کی سازش تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری اور شہید بی بی کا فیصلہ تو تاریخ نے کر دیا ہے ار ان لوگوں کو فیصلہ بھی کر دیا ہے جنہوں نے ان کے خلاف سازشیں کی تھیں اور آج وہ سارے لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان سازشیوں کے نام ہمارے آئین، ہماری مملکت اور تاریخ میں کالے حروف سے لکھیں ہیں جبکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اور پاکستانی عوام کا فیصلہ سب کے سامنے ہے لیکن ہم آج بھی اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ عدالتوں نے جو غطیاں کی ہیں ان کی تشریح کی جائے۔ یہ ہماری ذاتی درخواست نہیں اور یہ بات بھی نہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے داماد نے یہ کیس انصاف کے لئے عدالت بھیجا ہے بلکہ یہ کیس پاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی کا ہے۔ میں نہ صرف لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاءبلکہ پاکستان بھر کے وکلاءکا شکریہ اداکرتا ہوں کہ انہوں نے شہید ذوالفقار کے فیصلے کو اب تک تسلیم نہیں کیا اورآج تک اس فیصلے کو رد کرتے چلے آئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عدلیہ پر لگائے گئے دھبے کو صاف کیا جائے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کو بتائیں کہ ہماری ملک میں آزاد عدلیہ موجود ہے تو عدلیہ نے جو تاریخ میں غلطیاں کی ہیں انہیں درست کریں۔ ہماری عدلیہ نے ڈکٹیٹرشپ کی توثیق کی ہے اور اس نے جنرل مشرف اور جنرل ضیاءکی بھی توثیق کی ہے لیکن قائد عوام کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری وکلاءبرادری نہایت قابل احترام ہیں اور جج بھی، لیکن ہمیں عدلیہ کی کی ہوئی غلطیوں کو درست کرنا ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کسی بھی جمہوری نظام کی روح ہوتی ہے۔ موجودہ سلیکٹڈ حکومت قانون کی حکمرانی کو ختم کرنا چاہتی ہے اس لئے اس کی حفاظت کرنا تمام سیاستدانو ں، وکلاءاور ججوں پر عائد ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ اکثراوقات انصاف کا ترازو عوام پر ظلم کرنے والے پلڑے کی طرف جھکا ہوا ہے۔ ہماری تاریخ میں بہت ساری اچھی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ہماری عدلیہ نے تاریخ میں عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔ ہم ایک ایسا عدالتی نظام چاہتے ہیں جو انصاف اور برابری پر مبنی ہو۔ ہم کسی ایک خاندان یا پارٹی کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسے نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جس نے کروڑوں لوگوں کو ناکام کر دیا ہے۔ کوئی بھی جدید ریاست ایک انصاف پر مبنی قانونی نظام کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ پاکستان کو ایک انصاف غیرمتعصبانہ، شفاف اور کارآمد احتساب کا نظام چاہیے۔ موجودہ احتساب مخالفین کو دبانے اور ان لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے ہے جو حکومت کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں۔ عدالتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق اور انصاف پر مبنی مقدمات کی ذمہ داری نبھائیں۔ بدقسمتی سے عدلیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے یہ میرا پہلا تجربہ ہے اور ایک نوجوان سیاستدان کی حیثیت سے میں کہتا ہوں کہ پارلیمان ہماری توقعات پر پورا نہیں اتری اور شاید یہ پاکستان کی تاریک کی سب سے خراب کارکردگی والی پارلیمنٹ ہے۔ ہم اپنے اداروں کی بہتری چاہتے ہیں اور یہ ہم پاکستان کے عوام کے لئے چاہتے ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر ہے کہ پاکستان آہستہ آستہ جمہوریت کی طرف جا رہا ہے۔ ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو ایک قدم پیجھے ہٹ جاتے ہیں۔

 عمران خان کی حکومت میں ہم جمہوریت کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں بلکہ آمریت کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت چھوٹی ہی عمر میں انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی مہم سے متاثر ہو گئے تھے جس میں کھوسہ صاحب کا سر پھٹ گیا تھا۔ مجھے آج تک 12مئی کا واقعہ یاد ہے جب عدلیہ کی آزادی کے لئے پی پی پی کے کارکن شہید ہوئے تھے۔ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کسی ایک جج کے لئے نہیں بلکہ ایک ایس عدلیہ اور جمہوریت کے لئے تھی جو قانون کی حکمرانی کے تحت چلتی ہے۔ ہم عدلیہ کہ بہت عزت کرتے ہیں لیکن وکلاءکی تحریک سے لگائی گئی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ عدلیہ ایس جگہ ہے جہاں قانونی خیالات، آئینی امور اور بنیادی انسانی حقوق اور انسانی عزت کی بات کی جائے۔ یہ ایسی جگہ نہیں کہ جہاں یہ فیصلے کئے جائیں کہ کونسا ڈیم کہاں بنے گا۔ عدلیہ غریب ترین طبقے کا آخری سہارا ہوتا ہے لیکن کچھ ججوں نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ فیصلہ کریں کہ کونسی عمارت گرائی جائے گی اور کونسی عمارت نہیں گرائی جائے گی۔ پاکستان کی عدلیہ اورجمہوریت وکلاءبرادری کے ہاتھ میں ہے۔ وکلاءکے پسینے اور خون نے وکیل کے پیشے کو عزت بخشی ہے۔ بہت سارے جج موجود ہیں جن کی عزت نہ صرف یہ کہ پاکستان اس خطے بلکہ دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ ہم وکلاءسے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ اور پاکستان کے قانونی نظام کو بچائیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہماری سرحدوں کی ایک جانب انتہاپسندوں کی حکومت ہے اور سرحدوں کی دوسری جانب بھی انتہاپسند موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لئے یہ موقع ہے کہ ہم جمہوریت کے لئے روشنی کا منارا بن کر ابھریں۔ ہم اس دوراہے پر غلط سمت بھی جا سکتے ہیں۔ ہم اپنی پارلیمان کو مذاق بنا سکتے ہیں، ہمیں درست فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک جمہوری، وفاقی اور کثیرالجہتی معاشرہ بنائیں۔ 

پاکستان کی وکلاءبرادری سے ہر ڈکٹیٹر ڈرتا ہے وہ وکلاءکے کالے کوٹ سے ڈرتا ہے۔ متحد وکلاءبرادری کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کی حکومت کو چیلنج کریں اور ہم وکلاءبرادری سے اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح وہ قائد عوام اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کندے سے کندھا ملا کر جدوجہد کریں اور اس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں جو بیروزگار وکلاءنے بنائی تھی تاکہ ملک میں آئین اور جمہوریت کی حفاظت کی جا سکے۔ احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں اور ہم پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اس سلیکٹڈ حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کریں گے اور یہ تحریک پاکستانی عوام کے ساتھ ہوگی۔ وہ عوام جن کا وزیراعظم پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ہم اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس حکومت کو جمہوری انداز سے چیلنج کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ کون عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور کون عوام کے ساتھ نہیں کھڑا۔ انشااللہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہوں گے اور ضرور کامیاب ہوں گے۔

https://www.ppp.org.pk/pr/26304/

No comments: