اگلے انتخابات میں اگر ق لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح کسی نہ کسی شکل میں تحریکِ لبیک کا تحریک انصاف کے ساتھ اشتراک ہو جاتا ہے تو سیاست کا منظر نامہ بدل کر رہ جائے گا۔
قومی سیاسی جماعتوں کا دائرہ کار بہت تیزی سے سکڑ رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا سیاسی بندوبست آتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نئے حسن انتظام میں کیا تحریک انصاف اور تحریک لبیک ایک پیج پر ہیں؟
تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے لیکن اس معاہدے کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ یہ ’مناسب وقت‘ پر بتائی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک انتظامی معاہدے میں ایسا کیا ہے جسے عوام سے چھپایا جا رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آئندہ کے سیاسی حسنِ انتظام کی بابت بھی کچھ طے کیا گیا ہے اور اسی کو راز کی طرح چھپایا جا رہا ہے؟
مفتی منیب الرحمٰن صاحب فرماتے ہیں کہ تحریک لبیک نے فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہی نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر تحریک لبیک کا مطلوب و مقصود کیا تھا، کون سا مطالبہ لے کر قافلہ چلا تھا اور کون سی بات منوا کر وہ تھم گیا؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ مفتی صاحب اس مرحلے پر ایک خیر خواہ کے طور پر بروئے کار آئے ہیں اور فرانسیسی سفیر کے معاملے کی وضاحت کرکے وہ تحریک لبیک کی محض ترجمانی کر رہے ہیں یا یہ اس امر کا اشارہ بھی ہے کہ تازہ حسن انتظام میں اگلے مرحلے کے لیے تحریک لبیک کی متبادل یا معاون قیادت بھی تیار کی جا رہی ہے۔
سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو قومی سیاسی جماعتیں کم ہی راس آئی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد 24 سال تک انتخابات ہی نہ ہوسکے۔ پہلے عام انتخابات 1971 میں جا کر ہوئے اور اس کے نتیجے میں انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت غدار ٹھہری اور انتقال اقتدار کی بجائے سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔
بچ رہنے والے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک سیاسی حقیقت موجود تھی۔ ان کے خلاف تحریک نظام مصطفیٰ کھڑی کر دی گئی اور پھر جب ضیاء الحق آ گئے تو گویا حق آ گیا اور اہل مذہب کی تحریک بھی تھم گئی۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بہت بعد محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کرکے واپس لوٹیں توان کے غیر معمولی استقبال سے معلوم ہوا کہ بھٹو کی عصبیت زندہ ہے۔ چنانچہ اسلام کے نام پر اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا اور نواز شریف صاحب کو ایک متبادل اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہی وہ رجل رشید ہیں جو ملک میں اسلامی نظام قائم کریں گے۔
بے نظیرصاحبہ نے حکومت بنائی تو قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک ایسے دھرنے میں چار کارکنوں کی جان کی قربانی پیش کر دی، جس کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہوسکی۔ نتیجہ البتہ معلوم ہے کہ کچھ دنوں بعد بے نظیر حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس حکومت کے خاتمے سے جماعت اسلامی کی اعلائے کلمۂ الحق کی جدو جہد کو کتنے کلو گرام فائدہ ہوا، شاید سراج الحق صاحب ہی کچھ رہنمائی فرما سکیں۔
سماج کی طرح سیاست میں بھی ارتقا ہوتا ہے۔ اپنی ساری خامیوں اور خرابیوں کے باوجود معاشرہ اور سیاست دھیرے دھیرے ارتقا کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہی معاملہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا جو نفرت کے کھیل کو میثاق جمہوریت تک لائیں اور چند مشترکات پر جمع ہو گئیں۔
سیاست جب اس ارتقائی موڑ تک پہنچی تو قومی سیاسی جماعتوں کا ’علاج بالغذا‘ کرنے کے لیے تحریک انصاف سامنے آتی ہے جو سیاست کو 90 کی دہائی کی اسی تلخی کی جانب دھکیل دیتی ہے جسے سیاست کے شعور اجتماعی نے ایک سطح پر آ کر رد کر دیا تھا۔ یہ نفرت، غصہ، ہیجان جو سب کو حیرت زدہ کیے ہوئے ہے بلاوجہ نہیں ہے۔ سیاست کی فالٹ لائنز کو نمایاں رکھنا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔
قومی سیاسی جماعتوں کو محدود تر کرنے کے لیے ہر دور میں کچھ علاقائی، لسانی اور مذہبی قوتیں موجود رہیں۔ ایم کیو ایم کے ذریعے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کی چولیں ہلانا کتنا آسان تھا، اس کا مشاہدہ پوری قوم کر چکی۔ بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کے خلاف جماعت اسلامی صف اول میں رہی۔ نواز شریف کے خلاف
طاہر القادری بروئے کار آئے۔
عمران خان کی تحریک انصاف کی شکل میں ایک نیا رجحان یا تجربہ سامنے آیا۔ بظاہر یہ ایک مقبول ترین رہنما کی جماعت تھی لیکن اتفاق دیکھیے کہ اس جماعت کا اقتدار کچھ لسانی، علاقائی جماعتوں اور کچھ خاص الیکٹیلبلز کے سہارے قائم ہے۔ یہ سہارے عمران کو گرنے نہیں دیتے تو اٹھنے بھی نہیں دیتے۔ کہنے کو تو تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن عملی طور پر یہ وہ حسن انتظام ہے جس میں بھان متی کا سارا کنبہ شریک اقتدار ہوتا ہے مگر مختاری کی تہمت کسی ایک مجبور کے سر ہوتی ہے۔
سیاست کا یہی رجحان اب اگلے مرحلے میں بروئے کار آ رہا ہے۔ تحریک لبیک ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ گذشتہ انتخابات میں اس نے تقریباً 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اگلے انتخابات میں اگر ق لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح کسی نہ کسی شکل میں اس کا تحریک انصاف کے ساتھ اشتراک کار ہو جاتا ہے تو سیاست کا منظر نامہ بدل کر رہ جائے گا۔
پہلا اثر یہ ہو گا کہ ن لیگ کا دائرہ کار پنجاب میں سمٹ جائے گا۔ تحریک لبیک بہت سارے حلقوں میں تیسرے نمبر پر رہی تھی اور اس کے ووٹ تحریک انصاف کے ووٹوں سے مل جائیں تو ن لیگ اپنے آدھے جیتے ہوئے حلقے ہار جائے۔
دوسرا اثر یہ ہو گا کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ وغیرہ کے نتیجے میں تحریک انصاف اپنی مزید نشستوں سے دست بردار ہو گی۔ کچھ سیٹیں تحریک انصاف ق لیگ کے لیے چھوڑے گی، کچھ ایسے الیکٹیبل پہلے ہی تحریک انصاف بنا ئے جا چکے ہیں جو ایک گھنٹے کے نوٹس پر تحریک انصاف کو چھوڑنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں۔ کابینہ میں تقریباً 70 فیصد لوگ تحریک انصاف کے نہیں ہیں اور ہیں تو برائے وزن بیت ہیں۔ چنانچہ اس بندوبست کے تحت تحریک انصاف جیت بھی گئی تو اقتدار اسی ’حسن انتظام‘ کے ہاتھوں میں رہے گا۔
المیہ یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں اس چیلنج سے بے نیاز ہیں۔ قیادت نے اپنی جماعتوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ بنا کر رکھا ہے جہاں قیادت میراث میں آتی ہے۔ ن لیگ نے تو شعوری طور پر تنظیم کو کمزور رکھا ہے۔ چنانچہ سیاست میں علاقائی، لسانی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے زیادہ گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ لسانی، علاقائی اور فقہی حوالوں سے قائم سیاسی جماعتیں جتنی زیادہ ہوں گی، قومی سیاست اتنی ہی بے بس اور کمزور ہو جائے گی۔ اس کے کچھ مظاہر ہم دیکھ چکے، کچھ آنے والے دنوں میں دیکھ لیں گے۔
تحریک انصاف نے حزب اختلاف کو Outwit کر دیا ہے۔ جیسے ہی وزیر اطلاعات نے تحریک لبیک سے عسکریت پسند گروہ کے طور پر نمٹنے کا اعلان کیا، شہبازشریف نے فوری طور پر نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے تحریک لبیک سے لاتعلقی کا اعلان کرکے داد طلب کی۔ ابھی وہ داد پانے کے لیے ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ حکومت نے اسی تحریک لبیک سے معاہدہ کرلیا اور معاہدہ بھی ایسا جس کی تفصیلات مناسب وقت پر بتائی جائیں گی، البتہ اسے اسلام کی فتح ابھی سے قرار دیا جا رہا ہے۔
شہباز شریف کو لوگ قائد حزب اختلاف کی بجائے وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کہتے ہیں تو شاید ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ زبان خلق تو نقارہ خدا ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment