Wednesday, November 17, 2021

پورے ملک کو یہ جاننا ضروری ہے کہ آج حکومت کو پارلیمان میں شکست ہوگئی ہے کیونکہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے لئے حکومت کو 222ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ نہیں حاصل کر سکی، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری

 چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں آج مصروف دن گزارا۔ صبح کے وقت وہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے چیمبر میں ملاقات کے لئے گئے اور اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے اتحاد کی وجہ سے حکومت کو بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی اتحادی پارٹیوں کو حکومت کی قانون سازی پر اعتراض تھا اور اب خبر یہ ہے کہ ایک حکومتی رکن جو آج کے اجلاس میں نہیں آنا چاہتے تھے انہیں گھر پولیس بھیج کر بلایا گیا ہے اور بہت سارے حکومتی اراکین کو فون بھی کروائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے تمام اپوزیشن اراکین کا آج کے اجلاس کے لئے حاضری پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد پاکستانی عوام کے لئے امید کی کرن کا پیغام ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پارلیمنٹ کے طریقہ کار کی روگردانی کے عادی ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں پارلیمان کی سپرمیسی کی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ آج ہم پاکستانی عوام کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے۔

 بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے اپنے اراکین کے نمبر پورے کرنے کے لئے تمام حربے آزمائے۔ ہم یکطرفہ انتخابی اصلاحات اور کلبھوشن یادیو کے لئے کی جانے والی قانون سازی کی سخت مخالفت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سی سی آئی کے اجلاس میں فیصلے اتفاق رائے کی بجائے فیصلے اکثریتی بنیاد پر کئے گئے۔ مردم شماری پر سندھ نے اپنے اعتراضات نوٹ کروائے اور سندھ حکومت نے اسپیکر کو خط لکھا کہ پارلیمنٹ میں مردم شماری پر بحث کرائی جائے لیکن اسپیکر نے ایسا نہیں کیا اور کسی بھی رکن کو یہ اعتراضات نہیں بجھوائے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے ایک سروے کرایا تھا جس کے اعدادوشمار مردم شماری کے اعدادوشمار سے مختلف تھے۔

 انہوںنے امید ظاہر کی کہ اپوزیشن اراکین اس ایشو پر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا اتحاد وقت اور پاکستانی عوام کی ضرورت ہے۔ اسمبلی ہال کی طرف جاتے ہوئے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں دو مرتبہ حکومت کو شکست دے چکی ہے اور آج ہم یکطرفہ قانون سازی کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔ اپوزیشن کا اتحاد ہی اپوزیشن کی فتح ہے۔ اپوزیشن کے پاس اراکین کی تعداد پوری ہے۔ بعدا زاں اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسپیکر کو اپنی حیثیت اپنی کرسی اور اپنے مرتبے کی خود عزت کرنی چاہیے۔ انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ وہ رولز اور ریگولیشن اور آئین کے خلاف قانون سازی کرکے حکومت کے آلہ کار نہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے اپوزیشن سے کہا تھا کہ انتخابی اصلاحات اور قانون سازی پر مشاورت کی جائے گی لیکن وہ اپنے الفاظ سے پھر گئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومتی اراکین کو پارلیمان کی عزت کرنی چاہیے اور پارلیمان میں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عوام اور پارلیمان کو دھوکہ دے رہی ہے تو انہیں اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ اس طرح سے پارلیمان اور یہ مشترکہ اجلاس چلایا جا رہا ہے اس سے پارلیمان کی عزت پر حرف آتا ہے۔ حکومت یکطرفہ انتخابی اصلاحات لا کر انہیں پارلیمان میں بلڈوز کرنا چاہتی ہے۔ ایسا تو پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے دوتہائی رکھنے کے باوجود بھی نہیں کیا تھا۔ 

اس حکومت نے بھی 2017ءمیں ہم سب نے مل کر انتخابی اصلاحات کی تھیں جس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی اتحادی جماعتیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرتیں تو ہم سب مل کر قانون سازی کر رہے ہوتے اور آئندہ انتخابات متنازعہ نہ ہوتے۔ حکومت ای وی ایم کو بلڈوز کر رہی ہے لیکن ہم آج ہی اسے مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ای وی ایم پر 34اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اسپیکر ایک معصومانا سوال پوچھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم تو ہاﺅس کے اندر بھی موجود ہے لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا اور اب حکومت چاہتی ہے کہ ہزاروں پولنگ بوتھ پر ای وی ایم استعمال کی جائیں۔ حکومت جو یہ قانون سازی کر رہی ہے وہ آج ہی سے متنازعہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ بنانا آئین کے تحت ای سی پی کا کام ہے اور کوئی بھی قانون سازی آئین سے روگردانی نہیں کر سکتا۔ ہم نے آئین بنایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ اور آئین کے خلاف قانون سازی کو عدالتوں میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کا سوال ہے تو ساری پارٹیوں انہیں یہ حق دینا چاہتی ہیں۔ یہ حق انتخابات میں بیرون ملک پاکستانیوں کو پہلے ہی حاصل ہے۔ ہم اسی طرح پاکستان میں بھی وہی طریقہ استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ پیرس یا کیلے فورنیا میں بیٹھا ہوا ایک شخص کس طرح ملتان یا سبی میں انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ عمل ہر اس شخص کے ووٹ کی اہمیت کو کم کرنا ہے جو تاریخی مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کا سامنا کر رہا ہے۔ حکومت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے۔

 حکومت نے اس سے قبل بھی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ریلیف دے چکی ہے جس کا فائدہ اس نے نہیں اٹھایا۔ اس نے پاکستان اور پارلیمان کی بے توقیری کی ۔ ہم اس حکومت کو اجازت نہیں دیں گے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ریلیف دینے کے لئے پارلیمان کو استعمال کرے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ آئی ایم ایف گئے تو خودکشی کر لیں گے لیکن اب حکومت آئی ایم ایف کی غلام بن گئی ہے۔ پی ٹی آئی ایم ایف کا بوجھ پاکستان کے عوام برداشت کر رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام حکومت کی پالیسیوں کو بھگت رہے ہیں۔ اب یہ حکومت چاہتی ہے کہ اسٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کے تحت کر دیا جائے اور وہ پارلیمنٹ اور پاکستانی عدالتوں کو جوابدہ نہ ہو۔ پارلیمنٹ سپریم ہے اور ہم حکومت کے اس عمل کو بھی چیلنج کریں گے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پی پی پی کو مردم شماری پر تحفظات تھے لیکن ہم سے کہا گیا کہ صرف ایک انتخابات کے لئے اس مردم شماری کو تسلیم کر لیا جائے تاکہ انتخابات ہو سکیں۔ بعد میں سی سی آئی نے اتفاق رائے کی بجائے اکثریتی ووٹ سے یہ مردم شماری تسلیم کر لی گئی۔ اقوام متحدہ نے بھی ایک سروے کرایا تھا جس کے اعدادوشمار مردم شماری کے اعدادوشمار کے برعکس تھے آئین کے تحت سندھ حکومت نے اسپیکر کو ایک خط لکھا کہ سندھ حکومت کے اعتراضات تمام اراکین کو بھیج دئیے جائیں تاکہ آئندہ ہونے والے اجلاس میں مردم شماری پر بحث کی جا سکے۔ 

انہوں نے کہا کہ غلطیوں سے بھرپور مردم شماری سندھ، بلوچستان اور سابقہ قبائلی علاقوں کے حقوق اور وسائل پر ڈاکہ ہے۔ ہم یہ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کی انرجی پالیسی پر بھی سندھ کو اعتراضات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری اور انرجی پالیسی پر پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔ پورا ملک پارلیمان اور سیاستدانوں کی جانب دیکھ رہا ہے کہ پارلیمان میں ان کے مسائل پر بحث و مباحثہ کرکے انہیں حل کیا جائے گا لیکن حکومت ای وی ایم یکطرفہ انتخابی اصلاحات اور دیگر قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔ یہ عوام کے ووٹ ، ان کی جیبوں اور ان کے حق پر ڈاکہ ہے۔ بعدازاں ایک نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں کسی بھی بل کو منظور کرنے کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں کوئی بھی قانون حاضر اراکین کی اکثریت سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس بارے میں انہوں نے اسپیکر کو آئین کے پارلیمانی اصول کے سیکشن 10 کو پڑھ کر سنایا۔

 حزب اختلاف کی جانب سے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے جاتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس قانون سازی کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر کے یہ بیج بو رہی ہے لیکن اس کا پھل یہ حکومت نہیں بلکہ کوئی اور کھائے گا۔ بائیکاٹ کے بعد متحدہ اپوزیشن نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں بات کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پورے ملک کو یہ جاننا ضروری ہے کہ آج حکومت کو پارلیمان میں شکست ہوگئی ہے کیونکہ مشترکہ اجلاس میںقانون سازی کے لئے حکومت کو 222ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ نہیں حاصل کر سکی۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت 222ووٹ نہیں لے سکی اس لئے آج اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے میڈیا سے بھی کہا کہ وہ عوام کو بتائے کہ آج حکومت کو شکست ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں متحد ہے اس لئے ہم نے حکومت کو شکست دے دی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پیپلزپارٹی کا یہ تاریخی موقف ہے کہ ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔


https://www.ppp.org.pk/pr/25786/ 

No comments: