Tuesday, October 5, 2021

آف شور کمپنیوں کے شور میں دبتا غریب عوام کا شور

ثروت رضوی

کہتے ہیں کہ کسی بھی آزاد ریاست میں سانس لینے والے ذی روح کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے ریاستی اور بین الریاستی معاملات سے مکمل آگاہی حاصل ہوتی رہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو آج کل ہمارے ملک کا میڈیا اپنی ذمے داریاں بخیر و خوبی نا صرف نبھا رہا ہے بلکہ عوام الناس چاہے یا نہ چاہے انھیں زبردستی میڈیا کی منشا کے مطابق خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ ایسا ماضی میں تو ہوتا ہی رہا ہے تاہم اگر ہم حال کی بات کریں تو پچھلے چند روز سے خبروں میں پنڈورا پیپرز کی دھوم تھی۔

ہر دوسرے چینل پر خبروں میں پنڈورا پیپرز کے حوالے سے خبریں نشر کی جا رہی تھیں تو دوسری جانب تمام ٹاک شوز کا موضوع بھی یہ ہی پنڈورا پیپرز تھے۔ ایسے میں میڈیا جیسے یہ بھول ہی بیٹھا کہ ملک کے حالات اس وقت حقیقتاً نازک دور سے گزر رہے ہیں، ملک میں غربت اور افلاس کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ صبح سے پنڈورا پیپرز کی آمد کا انتظار ایسے کیا جا رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی اور بات ہے ہی نہیں۔ ہر جانب راوی چین ہی چین تو لکھ رہا ہے، پیٹرول کی قیمت عوام کی قوت خرید سے مطابقت رکھ رہی ہے، مہنگائی کا جن غریب آدمی نے اپنی مٹھی میں کر لیا ہے، ملک میں نہ چوری ہے نہ ہی ڈاکا زنی، ایسے میں تو یقیناً پنڈورا پیپرز کا انتظار بنتا ہی ہے تاکہ بلیٹن اور حالات حاضرہ کے پروگرامز کا پیٹ بھرنے کو خاطر خواہ مواد تو مل سکے۔

لیکن جناب یہ سب باتیں محض فسانہ ہی تو ہیں حقیقت تو اس کے یکسر برعکس ہے۔ ملک میں اس وقت مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے، پیٹرول کی قیمت میں اضٓفہ ایک معمول کی بات بن چکی ہے لاگ حکومتی کارکردگی سے حد درجہ نالاں نظر آتے ہیں ایسے میں جہاں ایک آدمی کو اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی فکر بے حال کیے ہوئے ہے وہاں بھلا کسے دلچسپی ہو سکتی ہے پنڈورا پیپرز میں۔ لیکن ہمارا معصوم میڈیا اسے عوام سے زیادہ خواس کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے تو شاید انھیں کو خوش کرنے کے لیے سب مل کے لگے تھے پنڈورا باکس کھولنے میں۔ یہ ہی نہیں بعضی جگہوں پر تو باقاعدہ کا ؤنٹ ڈاؤن بھی دیے جا رہے تھے کہ پنڈورا پیپرز کا راز فاش ہونے میں اتنے گھنٹے اتنے منٹ باقی ہیں جیسے کہ پنڈورا باکس نہ ہو گیا سال نو ہو گیا جس کا لوگوں کو شدت سے انتظار ہو گا۔

اگر اس صورتحال کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ سوال بھی ذہین میں آتا ہے کہ کتنے فیصد عوام ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز ہے کس بلا کا نام اور آف شور کمپنیز بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ یہاں ہم مختصراً ً اپنے جیسے کچھ نہ جاننے والے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ پنڈورا پیپرز اصل میں چودہ آف شور کمپنیوں کی فائلز پر مشتمل رپورٹ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی ہے تاکہ اس ملک کے لوگ اپنے لوگوں کے اثاثوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرسکیں۔

پنڈورا پیپرز میں یوں تو دنیا بھر کے مشہور لوگوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے تاہم ہمارے ملک میں آف شور کمپنیوں کی تاریخ کے باعث پنڈورا پیپرز کی اہمیت دیگر ممالک سے کہیں زیادہ سمجھی گئی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت مزید اہم ہے کہ آف شور کمپنی کا کسی کے نام پہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ شخص کسی جرم کا مرتکب ہی ہوا ہے۔ آف شور کمپنیوں کا ہونا کسی شخص کو مجرم ثابت نہیں کرتا اور یہ کمپنیاں قانونی طور پر اپنا مقام بھی رکھتی ہیں تاہم ہمارے سیاستدانوں کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ گمان غالب آتا ہے کہ جس کی آف شور کمپنی ہوگی اس نے یقیناً اپنی رقم چھپانے کے لیے ہی بنائی ہوگی جو مکمل طور پر صحیح۔

اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی عوام کو آگاہ کر دیا تھا کہ جرم میں ملوث ہر شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ایسے میں شو مئی قسمت کے خود عمران خان صاحب کی پارٹی کے کئی اراکین پنڈورا پیپرز کے مطابق آف شور کمپنیوں اور کئی ملین ڈالر پر مشتمل ٹرسٹ کے مالک نکلے۔ ایسے میں حکومت کی جانب کئی سوال اٹھے جن کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے ڈالی۔ اس صورتحال میں حکومت مخالف ارکان اس پنڈورا باکس کو تابوت کی آخری کیل سے تشبیہ دیتے بھی نظر آئے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کی کابینہ کے اراکین کے ملوث ہونے کی خبر اتنا وزن ہر گز نہیں رکھتی کہ پوری حکومت ہی کو ہڑپ کر جائے۔

جناب ابھی اور پر خطر اور دشوار گزار راستے آنے ہیں دھیرج رکھیں اور امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ پنڈورا پیپرز کی بارہ مصالحے کی چاٹ میں فواد چوہدری کے ٹویٹس نے اور بھی ذائقہ پیدا کیا۔ جنید صفدر کی آف شور کمپنیاں ہیں یا نہیں ہیں یہ بات اب کافی حد تک واضح ہو چکی ہے تاہم عوام کی نگاہوں میں سوال اب بھی باقی ہیں۔

پنڈورا پیپرز کے حوالے سے میڈیا کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے پرایوں کی آف شور کمپنیوں کی خبر بریکنگ کی طرح چلائی گئی۔ گلوکارہ شکیرا سے لے کر ولادی میر پیوٹن تک سب ہی خوب رگڑا دیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ای پنڈورا پیپرز کے حوالے سے غیر ملکی میڈیا کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ وہاں ایک آدھ خبر سے زیادہ کچھ چلایا ہی گیا جبکہ ہمارے ہاں تو دیوانگی کا عالم نہ پوچھیے والا معاملہ دکھائی دیا۔

ایسے میں بس یہ ہی سوال ذہین میں اٹھتا ہے کہ ہم اور ہمارا نیوز میڈیا اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ ان کو عوام کا دکھ درد نہ نظر آتا ہے نہ وہ کسی اور تک یہ خبر پہنچایا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اہم ہے تو بس سرکاری خبروں کی نشر و اشاعت باقی سب محج بلیٹن کا پیٹ بھرنے خانہ پری ہے؟ لمحہ فکریہ ہے یہ ہم سب کے لیے کہ من حیث القوم ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں جس کا ردعمل آنے والے وقتوں میں دیکھنے کو مل سکتا ہے

https://www.humsub.com.pk/423392/sarwat-rizvi-14/

No comments: