سید مجاہد علی
خیبر پختون خوا اسمبلی میں ملالہ یوسف زئی کے بیان پر وضاحت طلب کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امن انعام یافتہ 23 سالہ ملالہ نے برطانوی میگزین ’ووگ‘ کو ایک انٹرویو میں شادی، پارٹنر شپ اور محبت کے موضوع پر بات کی تھی۔ ملالہ جولائی کے ’ووگ‘ میگزین کےسرورق پر جلوہ افراز ہوں گی۔ جریدے نے ان کی کچھ تصاویر جاری کی ہیں اور طویل انٹرویو کے کچھ حصے نیٹ پر شائع کئے ہیں۔ لیکن پاکستانی قارئین ’ملالہ شادی پر یقین نہیں رکھتی‘ کا نعرہ لگا کر ملالہ یوسف زئی کی کردار کشی اور ان کے خیالات کے بارے پر جوش طریقے سے رائے زنی کررہے ہیں۔ ایک پوائینٹ آف آرڈر پر کے پی کے اسمبلی میں یہی بات دہرائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر گزشتہ چند روز سے اس موضوع پر طوفان بپا ہے۔ پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے ٹوئٹر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسف زئی سے سوال کیا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر ایک خبر زیر گردش ہے کہ ان کی بیٹی نے رشتہ ازدواج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کرنے سے بہتر ہے کہ پارٹنر شپ کی جائے نہ کہ نکاح‘۔ ضیاالدین یوسف زئی نے اس ٹوئٹ کے جواب میں لکھا تھا کہ ’محترم مفتی پوپلزئی صاحب ایسی کوئی بات نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان کی بیٹی کے انٹرویو کے اقتباس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور تبدیل کرکے اپنی تاویلات کے ساتھ شئیر کیا ہے، اور بس‘۔ اس سوال و جواب کے بعد بھی معاملہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ آج خیبر پختون خوا اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی طرف سے اس حوالے سے وضاحت طلب کرنے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ضلع اپر دیر سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی صاحبزادہ ثنااللہ نے ایک پوائینٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چند روز سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں ملالہ یوسف زئی کے ایک بیان کا چرچا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت تحقیقات کرے کہ کیا لڑکیوں کی تعلیم کی جد و جہد کے لئے مشہور عالمی شہرت یافتہ ملالہ نے واقعی شادی کے بارے میں یہ ریمارکس دیے ہیں۔ اگر ملالہ نے شادی کی بجائے عورت اور مرد میں پارٹنر شپ کی بات کی ہے تو اس کی مذمت کی جائے کیوں کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ ملالہ وضاحت کرے کہ اس نے یہ بیان نہیں دیا۔ اسی موضوع پر متحدہ مجلس عمل کے رکن اسمبلی عنایت اللہ خان نے کہا کہ شادی کے بارے میں ملالہ سے منسوب خیالات نے اس کی شخصیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ملالہ کے والد کو بتانا چاہئے کہ کیا غلطی سے بیان دیا گیا یا اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔ کیوں کہ ملالہ کی شناخت مسلمان اور پشتون روایات سے ہے۔ اب اس بیان کے بعد اس کے حامی بھی اس پر نکتہ چینی کررہے ہیں۔ تاہم اس بحث کے دوران عوامی نیشنل پارٹی اور حکمران تحریک انصاف کے نمائیندوں نے ملالہ اور اس کے خاندان کے مؤقف کی حمایت کی۔ اے این پی کے نثار خان نے کہا کہ ملالہ پشتون قوم کی بیٹی ہے جس نے بہادری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے خلاف کی جانے والی باتوں کی مذمت ہونی چاہئے۔ تحریک انصاف کے ضیااللہ بنگش نے کہا کہ انٹرویو کا متعلقہ حصہ دراصل ماں بیٹی کا مکالمہ ہے۔ اسے سیاق سباق سے علیحدہ کرکے تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بحث کے دوران دیگر ارکان نے بھی ملالہ سے وضاحت دینےکا مطالبہ کیا۔ اس بحث کی ضرورت اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے حب الوطنی اور دینی حمیت سے لبریز بیانات کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ ملالہ نے دراصل کیا کہا ہے۔ ’ووگ‘ میگزین کے انٹرویو میں محبت، شادی اور مرد و عورت کے تعلق کے بارےمیں جو باتیں کی گئی ہیں ، وہ کچھ یوں ہیں: ملالہ نے محبت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی اس کے سب دوست ساتھی تلاش کررہے ہیں۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔ میں ایسے تعلق کے بارے میں کچھ نروس ہوں۔ سوشل میڈیا پر ہرکوئی اپنے تعلق کی کہانی بتا رہا ہوتا ہے اور آپ پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا رومانوی تعلق کے بارے میں؟ ملالہ نے کہا ، ہاں۔ کہ کیا آپ کسی پر اعتبار کرسکتے ہیں یا نہیں۔ آخر اس بارے میں یقین سے کیسے کچھ کہا جاسکتا ہے۔ ملالہ نے بتایا کہ اس کے والدین نے ایک دوسرے کو دیکھ کر پسند کیا تھا پھر ان کے والدین نے شادی کا انتظام کیا۔ میں نہیں جانتی کہ میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں کو شادی کیوں کرنا چاہئے۔ اگر آپ زندگی میں ساتھی چاہتے ہیں تو یہ پارٹنر شپ کیوں نہیں ہوسکتی؟ ملالہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میری ماں اس بات پر مجھ سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا موقف یوں ہوتا ہے’خبردار جو ایسی بات کی۔ تمہیں شادی کرنا ہے۔ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے‘۔ اسی حوالے سے اس انٹرویو نما مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ملالہ کے والد کو پاکستان سے ملالہ کے لئے رشتے آتے رہتے ہیں۔ کہ لڑکے کی کتنے ایکڑ زمین ہے اور کتنے مکان اس کی ملکیت میں ہیں۔ ملالہ نے مسکراتے ہوئے یہ معلومات فراہم کیں اور بتایا کہ یونیورسٹی میں سیکنڈ ائر تک وہ یہی سوچتی تھی کہ مجھے شادی نہیں کرنی، بچے پیدا نہیں کرنے۔ میں صرف اپنا کام کرنا چاہتی ہوں۔ میں خوش و خرم اپنے خاندان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ لیکن ’میں اس وقت نہیں جانتی تھی آپ ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘۔ آخر میں ووگ میگزین کی رپورٹر سیرین کیل لکھتی ہیں کہ ’ لگتا ہے کہ ایک شاندار مزاحمتی زندگی گزارنے والی ملالہ کےلئے سارے آپشن موجود ہیں۔ ملالہ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ :آخر میں آپ کو اپنا مستقبل خود ہی تراشنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی جانتا ہے کہ یہ کام کیسے کرنا ہے تو وہ ملالہ ہی ہے‘۔ اس طویل انٹرویو میں محبت ، شادی، اعتبار اور ساتھ کے علاوہ متعدد اہم امور پر بات کی گئی ہے اور ملالہ یوسف زئی کی شخصیت اور اس کی سوچ کے نئے گوشوں کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن پاکستانی مباحث میں شادی کے حوالے سے ایک معصومانہ اور جائز سوال پر ملالہ کو مطعون کرنےاور اس کا رشتہ مذہب اور پشتون روایت سے جوڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کی ایک صوبائی اسمبلی میں اس حوالے سے بحث حیرت انگیز طور پر افسوسناک ہے۔ ایک ایسے ملک کی صوبائی اسمبلی کے ارکان کس منہ سے ’ملالہ سے جوابدہی اور وضاحت طلب کرنے‘ کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اپنی ہی ایک کم سن شہری کی حفاظت کا اہتمام بھی نہیں کرسکتا۔ اکتوبر 2012 میں پندرہ سالہ ملالہ کو طالبان نے ٹاگٹ حملہ میں ہلاک کرنے کی کوشش کی تو حکومت پاکستان معقول حفاظتی انتظامات میں اس کا علاج بھی نہیں کرواسکی۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی نگرانی میں زخمی ملالہ اور اس کے خاندان کو برطانیہ منتقل کردیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف ریاستی اداروں کی اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد سے حکومت پاکستان نے سیکورٹی کا عذر تراشتے ہوئے ملالہ اور اس کے خاندان کو پاکستان نہیں آنے دیا۔ وہ 2018 میں مختصر مدت کے لئے صرف ایک بار پاکستان آ سکی تھیں۔ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے اور ڈٹے رہنے اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق کے لئے سرگرم ہونے کی وجہ سے پوری دنیا نے ملالہ یوسف زئی کو اعزاز دیا ہے۔ وہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت تھیں۔ انہیں اقوام متحدہ میں خطاب کرنے اور امریکی صدر سمیت اہم ترین عالمی لیڈروں سے ملنے کا اعزاز حاصل رہا۔ اس پر ملالہ سے زیادہ دنیا کے لیڈر فخر اور عزت محسوس کرتے ہیں کہ وہ ملالہ جیسے باہمت اور اعلیٰ اوصاف و خیالات کی حامل لڑکی سے مل سکے۔ زیر بحث انٹرویو میں ہی سابق امریکی صدر باراک اوباما کی اہلیہ مشل کا درج زیل بیان بھی شامل ہے: ’وہ غیرمعمولی شخصیت ہے۔ میں اور باراک اسے پہلی بار 2013 میں اس وقت ملے جب وہ وہائٹ ہاؤس آئی تھی۔ فوری طور سے یہ واضح ہورہا تھا کہ اس کمرے میں وہ امریکی صدر کے ہم پلہ تھی۔ اس کا سکون، اس کی دانشمندی اور لڑکیوں کی طاقت پر کامل یقین۔۔۔ یہ سب کچھ اس پہلی ملاقات میں عیاں تھا‘۔ ملالہ کا یہ اعزاز اور تعلیم کے لئے اس کی جد و جہد اہل پاکستان کو قبول نہیں ہے۔ جس انٹرویو کو مباحث کا حصہ بنا کر ملالہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ بائیس تئیس سال کے کسی بھی نوجوان کے احساسات ہوسکتے ہیں۔ لیکن ملالہ نے جس مہارت، حساسیت اور خوبصورتی سے انہیں پیش کیا ہے، اس پر فخر کرنے اور توصیف کی بجائے، یہ نکتہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس نے شادی کو مسترد کرکے پارٹنر کے طور پر رہنے کی وکالت کی ہے۔ یہ مؤقف انٹریو میں کہی گئی باتوں سے برعکس ہے۔ ملالہ نے کہیں شادی کی مخالفت نہیں کی ۔ صرف یہ معصومانہ سا سوال اٹھایا ہے کہ اگر دولوگ مل کر رہنا چاہتے ہیں تو کیا شادی ہی واحد راستہ ہے۔ یہ پارٹنر شپ کیوں نہیں ہوسکتی۔ اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جس شادی میں پارٹنر شپ نہیں ہے ، اس شادی کا کیا فائدہ ہے۔ یہ سادہ سوال معاشرے کی غالب سوچ کو قبول نہیں ہے کیوں کہ پاکستانی معاشرے کی شادی میں عورت کو برابر ماننا مذہب سے بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی کے معزز ارکان اس حوالے سے یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ دنیا کا کوئی مذہب شادی سے انکار نہیں کرتا۔ یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی تو کسی مذہب کو مانتی ہی نہیں ہے۔ اور ناروے جیسے عیسائی ملک میں بھی پارٹنر شپ کے تحت رہنا قانونی طریقہ ہے۔ کیا شادی بھی ساتھ رہنے کا ایک معاہدہ نہیں ہے۔ پارٹنر شپ کے سوال پر جز بز ہونے والے لوگ دراصل شادی میں دو فریقوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔ وہ شادی کو عورت پر مرد کی اجارہ داری کا اعلان سمجھتے ہیں۔ ملالہ نے اس اجارہ داری کو عالمی سطح پر چیلنج کیا ہے۔ اسی لئے وہ مہذب دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے لیکن پاکستان کے کوتاہ نظر اسے دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر اپنے تعصب، جہالت اور کم علمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صنفی مساوات سے انکار کیا جاتا ہے جو جدید انسانی زندگی کا اہم اور بنیادی اصول ہے۔ کسی پاکستانی کو عالمی سطح پر وہ شہرت، عزت، قبولیت اور مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہؤا جو ملالہ یوسف زئی نے کم عمری میں اپنے حوصلہ، شجاعت ، ذہانت اور اصول پسندی کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔ وہ دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی توانا آواز ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس باصلاحیت خاتون کو ملکی مفادات کا نمائیندہ سمجھنے کی بجائے، اسے اپنی تہذیب و عقیدہ کے خلاف ’سازش ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس انٹریو میں بھی ملالہ نے بات کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے: ’میرا حجاب میرے مسلم عقیدے اور پشتون ثقافت کی علامت ہے۔ میں سب سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ثقافتی حدود میں بھی اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اور اپنے کلچر میں مساوات حاصل کرسکتے ہیں‘۔ پاکستان میں اس وقت تک قد آور ملالہ کو کمتر قرار دینے کی کوششیں ہوتی رہیں گی جب تک انسانوں میں برابری کے اس عالمگیر اور بنیادی اصول کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
https://www.humsub.com.pk/397930/syed-mujahid-ali-1815/
No comments:
Post a Comment