امید واثق ہے کہ آپ ساتھ خیریت کے ہوں گے ۔ اللہ ہمیشہ خیر ہی رکھے مگر حضور میں نے آج آپ سے کچھ باتیں پوچھنی ہیں۔ آپ ماشا اللہ سے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی عالمی دنیا میں ایک جانی مانی ہستی تھے۔ ایک مشہور کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے سکینڈلز اور آپ کی چھوٹی چھوٹی نیکر پہنے دنیا کے مشہور ساحلوں پہ مختصر لباس پہنے خواتین کے ساتھ تصاویر بھی بہت مشہور تھیں۔ تعلیم بھی آپ نے آکسفورڈ جیسے ادارے میں حاصل کی۔ یقین مانیں جب سے آپ پی ایم بنے ہیں آکسفورڈ یونیورسٹی سے بھی اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ وجہ میں نہیں بتاؤں گی۔ تکا لگا لیں۔
کبھی کبھار میں فرصت میں اپنے چنیدہ گناہوں کی لسٹ مرتب کرتی ہوں تو اس میں سرفہرست آپ کی پارٹی کو سپورٹ کرنا اور پھر اپنی زندگی کا پہلا ووٹ دینا آتا ہے۔ یہ واحد گناہ ہے جس پہ میں خود کو معاف نہیں کر پاتی۔ معذرت خواہ ہوں مگر سچ کہنے کی عادت پڑ چکی ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ ایک ماڈریٹ انسان ہوں گے پاکستان کو تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ تبدیلی کا سفر ہمیں پتھر کے دور میں لے کر جانے کے لیے ہے۔ پہلے والے چور تھے ڈاکو تھے مان لیا سر مگر کبھی ان کے منہ سے یہ نہ سنا کہ عورت کا لباس اس کے ریپ کی وجہ بنتا ہے۔
جناب من ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پچھلے ہفتے میں لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے ہوئے واقعات پہ آپ کی جانب سے مذمت آتی۔ آپ مدارس کو ریگولرائز کرنے کی بات کرتے۔ آپ الٹا عورتوں پہ لٹھ لے کر آ گئے۔ مدرسے میں مفتی عزیز الرحمن کی جانب سے طالبعلم کے ساتھ ہوئی ہراسمنٹ و جنسی زیادتی پہ آپ کے غم غصے کے اظہار کا انتظار کرتے کرتے میرے سر میں تو دو سفید بال نکل آئے۔ مگر آپ کو غصہ نہ آیا۔ اسلامی یونیورسٹی میں طالبعلم کے ساتھ گینگ ریپ پہ بھی آپ نے کچھ نہ سوچا، چپ رہے۔ شاید آپ کو ان دو لڑکوں کے ساتھ ریپ میں بھی عورت ہی ملوث نظر آئی۔ ہو سکتا ہے مفتی صاحب نے کسی عورت کو مختصر لباس میں دیکھ لیا ہو۔ اب شہوت پہ کس کا زور ہے کسی پہ تو نکلنی تھی۔ بے چارے طالبعلم پہ نکل گئی ہر چند کے اس کے تو کپڑے بھی مختصر نہ تھے۔
دنیا بھر میں ریپ کے واقعات کے سائیکالوجیکل تجزیوں کے مطابق ریپ کرنے والا وکٹم کے کپڑوں کی وجہ سے ریپ نہیں کرتا بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ ایک ریپیسٹ وکٹم کی بے بسی اور کمزوری سے خود کو مطمئن کرتا ہے۔ سر کیا آپ نے سندھ کنارے اندھی ڈولفن کے ساتھ ریپ کی خبریں کبھی غور سے پڑھی یا سنی ہیں؟ اب بچاری اندھی ڈولفن کی جانے بلا کہ کپڑے کیا ہوتے ہیں کجا کہ وہ مختصر و مکمل لباس کی تشریح سے واقف ہو۔
قصور کی سات سالہ زینب نے کیسے ریپیسٹ کو اکسایا ہو گا؟ ابھی کچھ عرصہ پہلے موٹروے پہ تین بچوں کے سامنے ماں سے زیادتی ہو گئی۔ اس نے کیا غلطی کی تھی۔ اور تو اور گھر میں گھس کے بچوں کے سامنے ماں کی آبروریزی کی گئی۔ جس ملک میں گھر کے اندر عورت محفوظ نہیں۔ اسے باہر کیسے تحفظ مل سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ کچھ دن پہلے ہی خبر پڑھی کہ قبر سے ایک دن کی دفنائی لڑکی کو نکال کے ریپ کر دیا گیا۔ اب ان عورتوں کے متعلق کیا کہیں گے آپ جو مر چکی ہیں۔ کیا ان کو لوہے کے کپڑے پہنا کے دفن کیا جائے۔ یا ان کی قبروں کو جنگلے لگا کے ویلڈ کروایا جائے۔ کیونکہ تالے توڑنا کون سا مشکل ہے ان کے لیے جنہوں نے ریپ کا ذہن بنا لیا ہو۔
مائی ڈئیر پرائم منسٹر صاحب! آپ از رہ مہربانی وکٹم بلیمنگ کرنا چھوڑ دیں۔ ریپیسٹ کی غلطی کو وکٹم کے کھاتے میں مت ڈالیں۔ یہ معاشرہ پہلے ہی بہت تنگ نظر ہے۔ خاص طور پہ عورتوں کے معاملے میں۔ اسے مزید تنگ نظر مت بنائیں۔ آپ ملک کے وزیراعظم ہیں خدارا بولنے سے پہلے سوچا کریں۔ آپ کے اس بیان سے کتنے پوٹینشل ریپیسٹ کو شہ مل سکتی ہے کیا آپ نے کبھی اس بات کا اندازہ لگایا ہے؟ وزیراعظم کی کرسی جھولے لینے کے لیے نہیں ہوتی۔ اس کرسی پہ بیٹھنے والے انسان کو اتنا عقل مند ہونا چاہیے کہ وہ اس طرح کی بات نہ کرے جس سے معاشرے میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔
مجھے تو کچھ سوالات ان سے بھی کرنے تھے جن کے بقول ان کے دیس کی بیٹیوں کی بے حیائی سے عذاب اتر رہے تھے۔ اب ان کے دیس کے بیٹوں کی عزت ان کے اپنے ساتھی تار تار کر رہے ہیں اس پہ ان کی زبان خاموش ہے۔ ہم نے تو پڑھا ہے کہ عذاب اترے ہی لواطت جیسے اعمال کی وجہ سے تھے۔ ان زمانوں میں تو نہ جینز تھی نہ کپڑوں کے چھوٹے بڑے ہونے کا مسئلہ تھا۔ جن کو اشتہاروں میں لڑکیوں کے کھیلنے میں شہوت نظر آ جاتی تھی، وہ بھی مفتی کے عمل پہ چپ ہیں۔ کیا لڑکوں کے ساتھ زیادتی پہ بات کرتے ان کے پر جلتے ہیں۔ ؟
گزارش یہ ہے جناب کہ اپنی سوچ کو وسیع کریں۔ مرد و عورت کو ایک دوسرے کے لیے ہوا مت بنائیں۔ اپنے تعلیمی نصاب کو اپ گریڈ کریں۔ بچوں کو وہ پڑھائیں جو انہیں دنیا میں جینے کے قابل بنائے۔ سکولوں میں بچوں کو گڈ بیڈ ٹچ کی تعلیم دیں۔ اور پلیز اب گڈ بیڈ ٹچ ایجوکیٹ کرنے کو سیکس ایجوکیشن دینا مت سمجھ لیجئیے گا۔ حتی کہ بچوں کو ان کی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیکس ایجوکیشن دینا بھی لازمی ہونا چاہیے۔ جی اب آپ اس بات پہ مجھے بے حیا کہنے میں حق بجانب ہو گئے ہیں کیونکہ میں نے لفظ سیکس لکھ دیا ہے۔
عورتیں اس ملک کی آبادی کا باون فیصد ہیں۔ ان کے لیے تعلیم، تحفظ، روزگار کے مواقع اور آزادی کو یقینی بنائیں۔ روز روز کے ان عورت مخالف بیانات سے آپ کا رہا سہا امپریشن بھی ختم ہو جانا ہے ان کی نظر میں جن کی نظر میں آپ تبدیلی لانے آئے تھے۔ بے چارے پہلے ہی شرمندہ شرمندہ پھرتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ ان باتوں پہ غصہ مت کیجئیے گا کیونکہ غصہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اور عقل کا دشمن ہوتا ہے بشرطیکہ عقل ہو۔
فقط آپ کے ملک کی جینز پہننے والی ایک عام عورت
No comments:
Post a Comment