وہ معاشرہ جہاں انسانوں کی پیدائش کا مقصد بس شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے وہاں ایک جوڑے کا شادی کی طرف اٹھایا
جانے والا پہلا قدم معاشرتی اصولوں کے خلاف قرار پایا۔
کہتے ہیں یونیورسٹی میں انسان جو اسباق سیکھتا ہے وہ کسی دوسری جگہ سے نہیں سیکھ سکتا۔ سکول اور کالج کا ماحول الگ ہوتا ہے اور یونیورسٹی کا الگ۔ سکولوں اور کالجوں میں سختی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یونیورسٹیوں میں قدرے آزاد ماحول ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں تو خیر لفظ آزادی کا مطلب بھی غلط لیا جاتا ہے۔ اسی لیے آگے بڑھنے سے پہلے واضح کرتے چلیں کہ یہاں آزادی سے ہماری مراد سوچنے، سمجھنے، پرکھنے اور فیصلہ کرنے کی آزادی ہے۔ ایسی آزادی ہمیں ملے بھی تو ہم اسے واپس کر دیتے ہیں کہ یہ ہمارے کس کام کی، تب ہی ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کو وہ درجہ حاصل نہیں جو باقی دنیا میں انہیں حاصل ہے۔
ان یونیورسٹیوں میں طلبہ کو سوچنے کی اور سوال کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ پروفیسر ہٹلر نہیں بلکہ ان کے دوست یا کولیگ بن کر انہیں پڑھاتے ہیں۔ طلبہ تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھی پوری شرکت کرتے ہیں۔ انہیں آپس میں بات چیت کرنے اور اپنی مرضی سے میل جول بڑھانے کی بھی آزادی دی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ بالغ ہوتے ہیں، اپنا اچھا برا جانتے ہیں، نہیں بھی جانتے تو غلطیاں کر کے اور ان سے سبق سیکھ کر جان جاتے ہیں۔
ایسا ہماری یونیورسٹیوں کے علاوہ دنیا کی ہر یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے اپنے ہی اصول ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں بنائی تو درس و تدریس کے لیے گئی ہیں پر وہاں اس کے علاوہ باقی ہر کام ہوتا ہے۔ ملک کی تمام بڑی جامعات میں بظاہر امن کا درس دیتی جماعتیں موجود ہیں جن کا واحد مقصد ادارے میں طلبہ کو ہراساں کرنا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے لطف اٹھانا ہوتا ہے۔
ہمارا دل پاکستان کی یونیورسٹیوں سے بیچلر ڈگری کے دوران ہی اٹھ گیا تھا۔ صبح جلدی اٹھو، گھر کے کام نبٹاؤ، تیار ہو، یونیورسٹی پہنچو بس یہ جاننے کے لیے کہ طلبہ کی دو انتہا پسند تنظیمیں آپس میں بھڑ چکی ہیں اس لیے کوئی کلاس نہیں ہو گی۔ جس دن تنظیموں کا امن قائم ہوتا اس دن پروفیسر کو کوئی ضروری کام پڑ جاتا اور بس یونہی سمسٹر گزر جاتا۔
رہی سہی کسر مشال خان کے قتل نے نکال دی۔ اس بھیانک قتل کی ویڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ اس کے بے جان جسم پر جس طرح تشدد کیا جا رہا تھا اسے دیکھنے کے بعد کون جیتا جاگتا انسان جس کے دل میں ابھی بھی انسانیت باقی ہو، اس یونیورسٹی میں قدم بھی رکھ سکتا ہے؟
ایسے میں جب خبر آئی کہ لاہور کی ایک جامعہ میں ایک لڑکی نے گھٹنے کے بل جھک کر اپنے محبوب کو پرپوز کیا ہے تو ہم حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کی زندگی کا اتنا خاص لمحہ اور اس نے اس کے لیے اپنی جامعہ کا انتخاب کیا؟ کیوں؟
اس جوڑے کی ہمت اور اپنی جامعہ کو اتنا خاص سمجھنے پر اسے سلام۔ پر اب دیکھ لیں اس جامعہ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جامعہ کے منتظمین کو لگا کہ جوڑے نے اپنے اس قدم سے جامعہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے انہوں نے جوڑے کو یونیورسٹی سے نکال دیا اور اس کے وہاں اور اس کی دیگر شاخوں میں آنے پر پابندی عائد کر دی۔
یعنی وہ معاشرہ جہاں انسانوں کی پیدائش کا مقصد بس شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے وہاں ایک جوڑے کا شادی کی طرف اٹھایا جانے والا پہلا قدم معاشرتی اصولوں کے خلاف قرار پایا۔ واہ!
ہماری محبت کرنے والوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ یہ معاشرہ آپ کی محبت کا دشمن ہے۔ اپنی محبت کے واسطے اسے اور اس سے حاصل ہونے والے لمحات کو اپنے اور اپنے پیاروں کی حد تک رکھیں، جس معاشرے میں رہتے ہوئے آپ نے محبت کی ہے، وہاں محبت کرنا منع ہے۔ یہاں محبت کو حلال اور حرام کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے۔ جس محبت کو آپ اپنے لیے جائز سمجھ رہے ہیں، وہ اس معاشرے کے نزدیک ناجائز ہے۔ جو محبت آپ ناجائز سمجھتے ہیں وہ ان کے لیے جائز ہے۔
آپ کا وہ لمحہ جو کسی پرائیویٹ جگہ پر آپ کی رہتی عمر کے لیے ایک یادگار بن سکتا تھا، اب اس معاشرے کی انتہا پسندی اور منافقت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
اس معاشرے میں محبت سے زیادہ نفرت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ اول تو یہاں کسی مخلص انسان کا ملنا ہی اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے، پھر اس کو پا لینا اور اس کے ساتھ ویسی ہی زندگی بسر کر پانا جیسی اس کے ملنے سے پہلے سوچی ہو، اس سے بڑا معجزہ ہوتا ہے۔
ہمیں محبت کے ان لمحوں کے جانے کا افسوس ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے جو فیصلہ لیا وہ تو متوقع تھا۔ ہمارے ہاں نہ لوگوں کے دل اتنے بڑے ہیں، نہ عہدوں میں اتنی جرات ہے کہ معاشرے کے عائد ان نام نہاد اصولوں کو توڑ سکیں۔ یہاں زور زبردستی کا قانون چلتا ہے اور اسی کی عزت کی جاتی ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جوڑے کے اس قدم سے معاشرے میں موجود انتہا پسندی کو ایک ضرب لگی ہے۔ ہماری ادنیٰ سی رائے میں اس سے کہیں کاری ضرب ان کی محبت اور زندگی کو پڑی ہے۔ جو لمحے ان کی زندگی کے یادگار ہونے چاہیے تھے، اب وہ پریشانی میں گزر رہے ہیں۔ لوگوں کا کیا جاتا ہے، ان کے ہاتھوں میں ان کے سمارٹ فون ہیں جس پر وہ کسی کو بھی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اس کا اس انسان پر کیا اثر پڑے گا۔
ہو سکتا ہے کچھ سالوں بعد یہ جوڑا اس مشکل کو یاد کر کے ہنس رہا ہو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت حال سے پیدا ہونے والا ٹراما پوری زندگی ان کے ساتھ رہے۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے تو بہتر نہیں تھا کہ اپنی محبت دوسروں کے ساتھ بانٹنے کی بجائے خود تک رکھی جاتی اور خود کو اس مصیبت میں پڑنے سے بچایا جاتا؟
تبدیلی ایک سست رفتار عمل ہے۔ یہ ایک دن یا ایک مہینے یا ایک سال میں نہیں آتی۔ ہاں اس دوران مسلسل چوٹ ضرور پڑتی رہنی چاہئیے تاکہ تبدیلی آتی محسوس ہوتی رہے، ہاں یہ یاد رکھیں کہ وہ چوٹ اتنی کاری نہ ہو کہ الٹا خود کو ہی نقصان ہو جائے۔ باقی امید پر دنیا قائم ہے۔ ہم نہیں تو ہمارے بعد یا ان کے بعد آنے والے اس ملک میں محبت کا جشن منائیں گے۔ ہماری زندگی میں ایسا ہونا پردے کے پیچھے ہی ممکن ہے۔
https://www.independenturdu.com/
No comments:
Post a Comment