سمیرا راجپوت
پاکستانی قانون کے مطابق اگر اسقاطِ حمل کے دوران خاتون کی موت واقع ہو جائے تو ڈاکٹر یا دائی پر قتلِ عمد کی دفعہ لگا کر اسے سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ رابعہ خاندان کی بڑی بیٹی تھیں اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری ان پر تھی۔ بچپن میں ہی والدہ دنیا سے رخصت ہوئیں تو تائی نے ان کی دیکھ بھال کی۔
رابعہ کے ایک بوائے فرینڈ تھے، جن کے ساتھ وہ تین برس سے شادی کے خواب سجائے بیٹھی تھیں۔ اسی دوران وہ حاملہ ہوئیں اور بقول رابعہ کے بوائے فرینڈ اعجاز کے، دونوں نے مل کر اسقاط حمل کروانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انہوں نے ایک پرائیویٹ کلینک کا انتخاب کیا۔
کلینک نے ان سے 15 ہزار روپے لیے اور عمل شروع کر دیا، لیکن دوران عمل رابعہ کی حالت بگڑی اور انہیں لاہور کے ایک ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا گیا لیکن وہ راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار گئیں۔
یہ 2021 کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوئی جس میں دیکھا گیا کہ ایک لڑکا ایک پرائیویٹ کلینک میں اسقاط حمل کے دوران مر جانے والی لڑکی کو وہیں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
پاپولیشن کونسل سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ہر سال 20 لاکھ سے زائد خواتین اسقاط حمل کرواتی ہیں لیکن اس میں زیادہ تعداد شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے۔
اگر معاشرتی رویوں کو دیکھا جائے تو خواتین یہ فیصلہ گھر کے حالات کے باعث کرتی ہیں جو بہرحال ایک جرم ہے۔ ان دو بڑے واقعات نے بہت ہی اہم مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
ہم لوگ نہ صرف تعلیم کی کمی کا شکار ہیں بلکہ شعور اور آگاہی کا فقدان بھی ہم لوگوں میں کثرت سے موجود ہے۔ پاکستان میں اسقاط حمل ایک قابل سزا جرم ہے۔ حمل ٹھہرنے کے 120 دن کے اندر اندر طبی ضرورت کے تحت اسقاط حمل کروایا جا سکتا ہے لیکن اس میں بھی عدالت سے اجازت لینا ضروری ہے۔
پرائیویٹ کلینک پر ایک دائی نے 15 ہزار روپے کے عوض قانون توڑا، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نے معاشرے کے ڈر سے قانون توڑا، دائی کو لالچ پیسوں کی تھی جسے یہ تک معلوم نہیں ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت عورت خود اسقاط حمل کا فیصلہ نہیں کر سکتی صرف طبی بنیادوں پر ہی یہ ممکن ہے۔
لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا اس کے لیے عدالت سے اجازت مشروط ہے جو ایک لمبا کام ہے لہٰذا اسقاط حمل کے نتیجے میں خاتون کی مرضی شامل ہونے پر بھی اسقاط حمل کرنے والے کو تین سال قید اور مرضی نہ شامل ہونے پر پانچ سال قید ہو گی اور اگر خاتوں کی موت واقع ہو جائے تو اس پر اسقاط حمل کرنے والے پر قتلِ عمد کی دفعہ لگا کر اسے سزائے موت بھی دی جا سکے گی۔
ان سب قوانین سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ لوگ دھڑلے سے قانون توڑتے ہیں کیوں کہ ایک یہی تو چیز ہے جس کا ہمیں ڈر نہیں۔
ان دونوں واقعات میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ دائی سے ایک پرائیویٹ کلینک پر اسقاط حمل کروایا گیا جو ناتجربہ کار تھی۔ دائی نے لڑکی کی حالت بگڑنے پر ہسپتال لے جانے کا کہا اور دونوں لڑکیاں راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار گئیں۔ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ دونوں لڑکے انہیں ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
الزام لگانے والے ان واقعات کا قصور وار صرف اور صرف عورت کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ عورت کو ملنے والی ضرورت سے زیادہ آزادی ہے۔
ان لوگوں سے ہمارا سوال ہے کہ ان مردوں پر کس چیز کا اثر ہے جو پہلے تو پیار محبت کے بڑے بڑے دعوے کرتے رہے اور جب خاتون ان کے بچے کی ماں بننے والی تھی تو سب سے پہلے پیار کھڑکی سے باہر کودا اور پھر انسانیت دروازے کے راستے فرار ہو گئی۔
ان دونوں واقعات کا عورت کی آزادی سے تعلق ہو نہ ہو، لاقانونیت، معاشرتی اقدار کی کمی اور معاشرے سے ناپید ہوتی انسانیت سے ضرور ہے۔ اگر لوگوں میں ’لوگ کیا کہیں گے‘ سے زیادہ قانون کا خوف ہو گا اور قوانین پر عمل درآمد ہو گا تبھی ان واقعات میں کمی آئے گی۔
https://www.independenturdu.com/node/61011/increase-abortion-cases-pakistan
No comments:
Post a Comment