تحریر: خرم اعوان
خدا خدا کر کے بلیک میلرز کا دھرنا ختم ہوا، میں ہزارہ برادری کے اپنے بھائی بہنوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ جن کے ماننے والے ہیں ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا؟ آپ نے اس طرح کے حکمرانوں کے سامنے دست فریاد کیوں پھیلایا؟ جو آپکو اپنا حق مانگنےپر بلیک میلر قرار دے۔ کیا آپ یہ بھول گئے کہ روز محشر خاتون جنت خود سب سے پہلا استغاثہ پیش کریں گی اور وہ بھی جناب علی اصغر کے خون آلود کرتے کے ساتھ۔ آپ نے ضرور یہ شرائط رکھنی تھیں ۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی حقیقت میں تو وزیراعظم نے شہدا اور ان کے لواحقین کو بلیک میل کیا کہ نہیں دفناتے تو نہ دفناؤجب تک تدفین نہیں کرو گے میں نہیں آؤں گا ۔
پندرہ سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا حالات حاضرہ اور صحافت کے ساتھ منسلک ہوئے۔ باقی لوگوں کے لیے حالات حاضرہ ایک خشک موضوع ہوتا ہے مگر مجھ سمیت میرے جتنے دوست ہیں وہ اسے بوجھ کی طرح نہیں ڈھو رہے بلکہ ذاتی دلچسپی سے یہ کام کر رہے ہیں۔ مگرپاکستان کے وزیرِ اعظم کا یہ موقف سن کر ہمیں شرم آ رہی تھی ۔ ہم اپنے آپ سے آنکھ نہیں ملا پارہے تھے، کہ ہم ان لوگوں کو اپنے پروگرامز اپنی تحریروں کا موضوع بناتے ہیں، جنھیں سفاک قتلوں میں مقتولوں کے لواحقین کا رونا احتجاج بلیک میلنگ نظر آتا ہے۔ آپ نے نہیں جانا نہ جائیں، اس موضوع پر بات مت کریں ۔ آپ تقریب میں کسی اور موضوع پر بات کرنے گئے مگر آپ شروع ہو گئے مچھ میں ہزارہ لوگوں کے سفاکانہ اور لرزہ خیز قتل کی واردات پر ،جہاں اس طرح کی بات کرنے سے بہتر تھا کہ آپ صرف افسوس کر کے گزر جاتے،باقی کام شیخ رشید جاں فشانی سے کر تو رہے ہیں۔ مگر آپ کو تو ہر بات پر بولنا ہے، آپ کو ایک خبط ہے کہ آپ کو ہر بات کا ادراک ہے۔ آپ کہتے ہیں آپ کی جدوجہد بائیس سال کی ہے مگر افسوس آپ کی تربیت بائیس منٹ کی بھی معلوم نہیں ہوتی۔
آپ نے اس پرامن قوم کو اس دوراہے پر لاکھڑا کیا تھاجہاں یا تو وہ اپنی ریاست سے مایوس واپس لوٹ جائیں یا پھر وہ ہتھیار کی زبان میں بات کرنا شروع کر دیں اگر ہمارےمقتدر ادارے بیچ میں نہ پڑتے اوراس معاملے کو نہ سنبھالتے تو حالات ویسے ہوتے جیسے کراچی میں پچھلے تیس سال رہے۔ وہاں بھی تو نسل کی بنیاد پر سب شروع ہوا۔ انھوں نے خاموش رہنے کی بجائے اسلحہ اٹھایا اور پھر حالات تیس سال قابو سے باہر رہے۔
سوشل میڈیا پر یہ شور بھی مچایا گیا کہ جنرل موسیٰ خان نے ان سات سو لوگوں کے قتل میں مطلوب قاتلوں کو ملک سےباہر بھجوایا۔ پہلی بات جنرل موسیٰ خان 1983 میں جنرل (ر) موسیٰ خان تھے،اور کراچی میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ دوسری بات اس وقت افغان جنگ شروع ہو چکی تھی۔ تیسری بات ریاست کی پالیسی کے تحت جنگی مہاجرین کو یہاں آباد کیا گیا۔ جنرل (ر) موسیٰ خان نے ان (ہزارہ) کو بلوچستان سے ایران بھاگنے میں کردار ادا نہیں کیا بلکہ ان کو ریاست کی پالیسی کے تحت مہاجرین کو آباد کرنے میں کردار ادا کیا وہ بھی 1984 میں جب وہ بلوچستان کےگورنر بنے۔ ریاست کی پالیسی تھی کہ افغان جنگ کے متاثرین جب کوئٹہ آتے تو دو ماہ کے اندر اندر ان کو پاکستان کی شہریت اور دوسرے کاغذات مل جاتے او رانہیں یہاں کے لوکل باشندوں کے برابر حقوق حاصل ہوتے۔چوتھی بات جنرل (ر) موسیٰ خان کا انتقال بحیثیت گورنربلوچستان کام کرتے ہوئے گورنر ہاؤس میں ہوا تھا، اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کے جسدِ خاکی کو مشہد میں دفن کیا جاۓ۔ پانچوں بات اس وقت کوئٹہ کی آبادی ٹوٹل دس لاکھ سے بارہ لاکھ کے درمیان تھی۔ اگر اس وقت سات سو لوگوں کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھایا گیا ہوتا تو کہرام مچ جاتا اور یہ بات رپورٹ ہوئے بغیر نہ رہتی ایسی کوئی رپورٹ سامنے نہ آئی۔ اس لیے خدا کا واسطہ ہے کہ کسی پر ہونے والے ظلم اور اس ظلم پر اس کے احتجاج کو اس طرح کی نفرت کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ میرا سب سے بڑا سوال آپ سے یہ ہے کہ بحثیت ہزارہ برادری انہوں نے ریاست کے خلاف کب اسلحہ اُٹھا یا۔ اب اگر ان شہید ہونے والے لوگوں کے لواحقین میں سے کوئی نو جوان بدلہ لینے کی سوچ سے اسلحہ اٹھا لے تو اسے انفرادی عمل کہیں گےیا ہزارہ برادری کا جبکہ وہ اس عمل کا دفاع بھی نہ کر رہے ہوں۔ دوسرا میرا سوال ہے کہ اگر کوئی گروپ ہے تو اس کے سربراہ کانا م بتا دیں تاکہ میری معلومات میں اضافہ ہو سکے۔
میری ان دوستوں سے دست بستہ عرض ہے جناب ان کے ساتھ 1996 سے یہ سب ہو رہا ہے۔ ان کے تو ایک وقت میں سو سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے (جواب دے سکنے کی طاقت آپ کے بقول جو یہ رکھتے ہیں کے باوجود) پر امن راستہ اختیار کیا کیوں۔ یہ خاموشی سے اپنے پیاروں کے جسد خاکی کے ساتھ آ کر کھلے آسمان کے نیچے سڑک پر بیٹھ جاتے ہیں اور ریاست کو دہائیاں دیتے ہیں ، ریاست سےخاموش پر امن احتجاج کرتے ہیں، جس نے انھیں یہاں آباد کیا تھا ۔ اپنوں کے ذبح ہونے پر صبر و استقامت سے بیٹھ کر خاموش احتجاج کرتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو یہ کیوں گوارہ نہیں؟ آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے خون کا بدلہ ریاستی قانون کی بجائے خود لینا شروع کر دیں ؟ آپ کیوں انھیں اپنا مسلمان بھائی جان کر قبول نہیں کرتے؟ کیوں ایک جسد واحد کے مختلف حصوں کی مانند اکٹھے نہیں رہ سکتے؟ہم کیا کم نقصان اٹھا چکے ہیں ۔ کیا ہمارا دل ابھی بھی نہیں بھرا۔
تو پھر یہ ریاست ان کے دکھوں کا مداوا کرنے میں تاخیر کا شکار کیوں ہوئی تو جناب کچھ ڈیمانڈز بھی ایسی تھیں جو نہیں کرنی چاہیے تھیں، ان میں سے ایک پچھلے سال بلال نورزئی والے واقعہ میں پکڑے گئے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کرنا تھا جبکہ یہ لوگ آپ کے ہی جرگہ اور عمائدین نے پکڑوائے تھے ، ٹھیک ہے بلال نورزئی کوآپ کی برادری کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی تھی اور وہ اس سلسلہ میں آپ کے علاقے میں آتا جاتاتھا ، آپ اُسے منع کرتے اُس کے بڑوں سے بات کرتے، آپ کے کچھ نو جوانوں نے اُسے ایک سیلون میں بند کر دیا اور اُسے قینچی، چھری اور بلیڈ سے زخمی کر کر کے مار دیا ، جب بات بڑھی تو آپ کے بڑے جرگہ کی صورت میں ان کے بڑوں سے ملے ، معافی مانگی ، ان ملزمان کی گرفتاریاں کروائیں تو اب ان کی رہائی اس مطالبے میں کیسے آگئی۔
پھرآپ کی جانب سے جو زیادتی کی گئی وہ تھی آئی جی ایف سی بلوچستان کو ہٹانے کی بات وہ ایک پروفیشنل اور بھلے مانس انسان ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر بہت سی کامیابیاں ہیں یہ آپ کی جانب سے دوسری زیادتی تھی۔ پھر آپ نے جو افغان باشندے اس حادثے میں شہید ہوئے ان کے حوالے سے ڈیمانڈ رکھی تھی ۔ یہ آپ کے لیڈران کی جانب سے پھر سے زیادتی کی گئی تھی، جس کی وجہ سے یہ بات مقتدرہ کی سمجھ سے باہر ہو رہی تھی۔ اور اُنہوں نے وزیرِ اعظم کو مچھ جانے سے روکے رکھا،کیونکہ یہ ڈیمانڈز قومی سلامتی سے براہ راست متصادم تھیں۔ مگر بات اُس وقت غلط ہو گیٔ جب پریشر برداشت نہ کرتے ہوے نہ صرف وزیرِ اعظم اس کا حل نکالنے سے قاصر رہے بلکہ دباؤ میں اُن دکھیاری ماؤں ، بہنوں اور بچوں کو بلیک میلر کہہ گئے ۔ اب خدشہ پورے ملک میں آگ لگنے کا تھا ، اسے کنٹرول کرنے کے لیے مقتدرہ کو اپنا نادیدہ کردار ادا کرنا پڑا۔ اسی لیے تو متحدہ اپوزیشن اُن سے بات کرنا چاہتی ہے کیونکہ اِن سے تو ہوتا کچھ نہیں ، بلکہ جو اِن کے کرنے کا کام ہوتا ہے وہ بھی وہی کر کے دیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو 2018 کے انتخابات میں اتنی شعوری دھاندلی ہو چکی ہے کہ ہم سب پاکستانی بلیک میلر بن گئے ہیں سوائے ایک کے کیونکہ انہیں تو صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ مل چکا ہے۔
https://samachar.pk/
No comments:
Post a Comment