تحریر: نذیر ڈھوکی
پاکستان کے میڈیا پر اس وقت سخت سنسرشپ عائد ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان کو جب اقتدار میں لایا گیا تھا تو وہ سب سے پہلے میڈیا پر ہی حملہ آور ہوئے۔
میڈیا ہاؤسز سے لاکھوں محنت کشوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، جو ملازمتوں پر بحال رکھے گئے ان کی تنخواہ پر بھی تیس سے چالیس فیصد کٹ لگایا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ اس تنخواہ پر راضی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ خود کو نوکری سے فارغ سمجھو۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کی مارکیٹنگ کیلیئے میڈیا ہاؤسز نے غضب کا کردار ادا کیا تھا الیکٹرانک میڈیا کا ستر فیصد ٹائم عمران خان کیلئے وقف تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انکشاف کیا تھا کہ جج فوجیوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ فوجی انہیں نوکری سے نکال سکتے ہیں، ایسے حالات میں میڈیا ہاوسز کے مالکان کیسے جرآت کر سکتے ہیں کا اپنی آزادی کا پرچم سر بلند کرنے کی جسارت کریں، ہاں اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کسی بھی سرگوشی کی حقیقت معلوم کیئے بغیر نشر یا شایع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب 1988 میں اقتدار میں آئیں تو پرنٹ میڈیا کو کاغذ کے کوٹا سے آزاد کیا ، اس زمانے میں پرنٹ میڈیا کو محدود کاغذ مہیا کیا جاتا تھا، مگر ہوا کیا کہ میڈیا اپنی آزادی کے جوھر حکومت کو دکھانے لگی، 1988 سے لیکر آج تک
میڈیا کا نشانہ صدر آصف علی زرداری ہیں، اگر 1988 میں پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر الزام تراشی کی جاتی تو عوام کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ تھا اس لیئے میڈیا کا آسان نشانہ صدر آصف علی زرداری تھے، آپ 1970 سے لیکر 1977 تک کے اخبارات کھنگال دیکھیں، مجیب الرحمان شامی اور دیگر شاہی قلمکاروں کی زہر آلود تحریریں نظر آئیں گی، ایک الطاف حسن جو اب بھی حیات ہیں کو مشرقی پاکستان میں انسانوں کا بہنے والا خون بھی محبت کا زمزمہ نظر آتا تھا۔ سچی بات یہ ہے مجیب شامی ، قادر حسن، الطاف حسن قریشی جیسے درباری دانشوروں نے ایک نہیں کئی نسلوں کو گمراہ کرکے پیٹ پالا ہے، جن نوجوانوں نے اس دور میں ہوش سنبھالا اور شعور پکڑا ہے ان کے سامنے تو ٹی وی چینل ہیں جو جعلی اکاونٹ کی خبریں سنتے چلے آ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سہی میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے سوال کر سکتے ہیں کہ فلودے والے، پکوڑے فروش وغیرہ وغیرہ کے اکاونٹ سے ملنے والی رقم کہاں ہے؟ سوال یہ بھی بنتا ہے عمران خان کی بہین علیمہ خان نے اربوں روپے کس بنک کے ذریعے بیرون ملک بھیج کر پراپرٹی خریدیں تھیں؟
پاکستان کے میڈیا ہاوسز کیلئے یہ خبر نشر کرنا آسان ہے کہ جو شخص کبھی بھی صدر آصف علی زرداری سے ملے تک نہیں انہیں صدر آصف علی زرداری کا قریبی دوست بنانے کے جتن کرتے ہیں کیا، ان سے یہ سچ اگل پایہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، اصل بات یہ ہے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لیکر صدر آصف علی زرداری تک میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی بجائے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز میں کام کرنےوالے محنت کشوں کے طرف دار رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے سیٹھ جنہوں نے محنت کشوں کے خون اور پسینے پر میڈیا ٹاور کھڑے کیئے ہیں کو پرخاش یہ ہے پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔
صحافیوں اور مزدوروں کے ساتھ کیوں ہے؟
میڈیا ہاؤسز سے لاکھوں محنت کشوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، جو ملازمتوں پر بحال رکھے گئے ان کی تنخواہ پر بھی تیس سے چالیس فیصد کٹ لگایا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ اس تنخواہ پر راضی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ خود کو نوکری سے فارغ سمجھو۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان کی مارکیٹنگ کیلیئے میڈیا ہاؤسز نے غضب کا کردار ادا کیا تھا الیکٹرانک میڈیا کا ستر فیصد ٹائم عمران خان کیلئے وقف تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انکشاف کیا تھا کہ جج فوجیوں سے ڈرتے ہیں، کیونکہ فوجی انہیں نوکری سے نکال سکتے ہیں، ایسے حالات میں میڈیا ہاوسز کے مالکان کیسے جرآت کر سکتے ہیں کا اپنی آزادی کا پرچم سر بلند کرنے کی جسارت کریں، ہاں اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف کسی بھی سرگوشی کی حقیقت معلوم کیئے بغیر نشر یا شایع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب 1988 میں اقتدار میں آئیں تو پرنٹ میڈیا کو کاغذ کے کوٹا سے آزاد کیا ، اس زمانے میں پرنٹ میڈیا کو محدود کاغذ مہیا کیا جاتا تھا، مگر ہوا کیا کہ میڈیا اپنی آزادی کے جوھر حکومت کو دکھانے لگی، 1988 سے لیکر آج تک
میڈیا کا نشانہ صدر آصف علی زرداری ہیں، اگر 1988 میں پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر الزام تراشی کی جاتی تو عوام کی طرف سے مزاحمت کا خطرہ تھا اس لیئے میڈیا کا آسان نشانہ صدر آصف علی زرداری تھے، آپ 1970 سے لیکر 1977 تک کے اخبارات کھنگال دیکھیں، مجیب الرحمان شامی اور دیگر شاہی قلمکاروں کی زہر آلود تحریریں نظر آئیں گی، ایک الطاف حسن جو اب بھی حیات ہیں کو مشرقی پاکستان میں انسانوں کا بہنے والا خون بھی محبت کا زمزمہ نظر آتا تھا۔ سچی بات یہ ہے مجیب شامی ، قادر حسن، الطاف حسن قریشی جیسے درباری دانشوروں نے ایک نہیں کئی نسلوں کو گمراہ کرکے پیٹ پالا ہے، جن نوجوانوں نے اس دور میں ہوش سنبھالا اور شعور پکڑا ہے ان کے سامنے تو ٹی وی چینل ہیں جو جعلی اکاونٹ کی خبریں سنتے چلے آ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سہی میڈیا ہاؤسز کے مالکان سے سوال کر سکتے ہیں کہ فلودے والے، پکوڑے فروش وغیرہ وغیرہ کے اکاونٹ سے ملنے والی رقم کہاں ہے؟ سوال یہ بھی بنتا ہے عمران خان کی بہین علیمہ خان نے اربوں روپے کس بنک کے ذریعے بیرون ملک بھیج کر پراپرٹی خریدیں تھیں؟
پاکستان کے میڈیا ہاوسز کیلئے یہ خبر نشر کرنا آسان ہے کہ جو شخص کبھی بھی صدر آصف علی زرداری سے ملے تک نہیں انہیں صدر آصف علی زرداری کا قریبی دوست بنانے کے جتن کرتے ہیں کیا، ان سے یہ سچ اگل پایہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے قریبی ساتھی ہیں، اصل بات یہ ہے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے لیکر صدر آصف علی زرداری تک میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی بجائے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز میں کام کرنےوالے محنت کشوں کے طرف دار رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میڈیا ہاؤسز کے سیٹھ جنہوں نے محنت کشوں کے خون اور پسینے پر میڈیا ٹاور کھڑے کیئے ہیں کو پرخاش یہ ہے پیپلزپارٹی ہمارے ساتھ کیوں نہیں۔
صحافیوں اور مزدوروں کے ساتھ کیوں ہے؟
No comments:
Post a Comment